چھٹیاں ہوئے آج پانچواں دن ہے۔ نہ جانے ابھی تک کیوں نہیں
آئے، پہلے تو دوسرے دن ہر صورت آ جاتے تھے۔
میری اماں جھریوں والے چہرے پر لگے بڑے شیشوں والی عینک سے
کبھی دائیں کیلنڈر دیکھتی اور کبھی بائیں گھڑی کو۔ اسی ادھیڑ بن میں آج کا دن بھی
گزر گیا۔ رات کو ابا آئے تو بھی یہی بحث چل رہئ تھی۔
ارے آپ ٹیلی فون تو کریں سب
خریت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا تھا، کاغان کی طرف گئے ہیں، اس مربتہ نہ آئیں
شاید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابا، اماں کا جملہ کاٹ کر بولے اور نگاہیں چُرا لیں۔
دونوں اپنی سادگی میں سوچ رہے تھے کہ نہ جانے اس بار کیا
ہوا، ہر سال گرمیوں کی چھٹیوں میں تو آتے ہیں۔
لیکن میں جانتی تھی، کہ اب بچے بڑے ہو گئے ہیں، اور ماڈرن
بھی، اب انھیں نانی، نانا کا پیار اتنا ضروری نہیں لگتا، جتنا ناران کاغان، دوست،
اور شہر لگتا ہے۔ گاوں کی کھلی فضا میں اب اُنکا دم گھٹتا ہے۔ یہاں کچھ بھی تو
نہیں اب جو اُن کی دلچسپی کا باعث بنے۔ اور تو اور اب باجی کا بھی کچے مکان اور
بوڑھے ماں باپ کے ساتھ دل نہیں لگتا۔
رخصتی پر تو جانے کے خیال سے کتنی بار بیہوش ہوئی تھی۔
میں نے زہر خند لہجے میں سوچا
تحریر
کوشش: عمیر علی
0 تبصرے:
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔