ابو آپ نے ہمارے لیے آخر آج تک کیا کیا ہے؟ آخر مجھے بھی اس
غریب گھر میں پیدا ہونا تھا۔میری عمر کے لڑکے بڑی بڑی گاڑیوں میں کالج آتے ہیں۔
اور ایک آپ ہیں کہ پُرانی موٹر سائیکل دے رکھی ہے جو چلنے سے زیادہ رُکتی ہے۔ کوئ
ڈھنگ کا کام کیا ہوتا آپ نے تو ہم بھی دو وقت کی روٹی کی فکر کی بجائے آسائشوں میں
رہ رہے ہوتے۔ لعنت ملامت کرتا ہوا وہ گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ اور مجرم باپ ان گنت
سوالوں میں الجھا رہا۔ صفائ میں اُس کے پاس کہنے صرف یہ تھا کہ۔ بیٹا رزق حلال سے
پروان چڑھا کر "صرف" چھ فٹ کا تعلیم یافتہ نوجوان بنانے کے سوا کوئ چارہ نا تھا۔
دوسرا منظر
گھر سے نکلا تو پتا چلا آج اُس کے پسندیدہ لیڈر کا جلسہ ہے۔
باپ سے کی ہوئ تکرار بھول کر وہ جانفشانی سے جلسے کی تشہیری مہم میں شریک ہو گیا۔
جلسے میں لوگ زورشور سے اپنے لیڈر کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔ جب لیڈر پنڈال میں
پہنچا تو وہ عقیدت سے آنکھیں پھاڑ کر اُس کی ہر ہر جھلک کو یاداشت میں اُتارنے
لگا۔ تقریر بھی پر اثر رہی۔اُسے یقین تھا اس بار یہ لیڈر اس قوم کی حالت بدل کہ
رکھ دےگا۔سنہرے خوابوں میں کھویا کھویا وہ واپس اپنے باپ کے کباڑ خانے یعنی گھر
میں داخل ہوا۔
تیسرا منظر
تقریر ختم کرنے کے بعد پسینے میں تر بتر وہ اپنے گاڑی جو کہ
عوام کی "خدمت" کے صلے میں اُس کی ملکیت بنی تھی میں بیٹھا اور ڈرائیور
کو بولا جلدی چلو اور ائر کنڈیشنڈ تیز کرو۔ ایک تو ووٹ کیلئے کیسے کیسے لوگوں میں
جانا پڑتا ہے۔ وہ بڑبڑایا۔
فون کی بیل بجنے پر فون کان سے لگاتے ہوئے بولا۔ جناب آپ
فکر نہ کریں آپ جیسا کہیں گے ویسا ہی ہوگا۔ آپ کو پتا ہے ووٹ لینے کیلئے وعدے تو
کرنے پڑتے ہیں ۔ کریں گے تو وہی جو آپ کا حکم ہوگا۔
تحریر:
عمیر علی
0 تبصرے:
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔