نئے گھر میں آنے پر میں بیحد پرجوش تھا۔ کئی سال کی محنت ، لگن اور ریاضت کے بعد بالآخر میں اس کرہ ارض پر اپنی چھت پانے میں کامیاب ہوا تھا۔ گھر کا تمام سامان بھی نئے سرے سے چن کر خریدا تھا۔ دکھ تھا تو بس یہی کہ امی،ابو مجھے اپنے گھر میں نہ دیکھ سکے اور اس دن کی حسرت میں ہی چلے گئے۔ تمام گھر آراستہ کروا نے کے بعد تھکن سے ایسا سویا کہ صبح گیارہ بجے آنکھ کھلی۔ افضل کو فون کر کے سمجھا دیا کہ آج دفتر سنبھال لینا اور تمام کام احسن طریقے سے انجام دینا۔ دن گزرتے گئے اور رفتہ رفتہ میں اکیلے گھر میں اکتاہٹ محسوس کرنے لگا۔ فلیٹس میں سب دوست خوب دھما چوکڑی مچا کر رکھتے تھے۔ اکتاہٹ کو ختم کرنے کیلئے اتوار کو سب دوستوں کو گھر بلا لیا۔
یار کاشف تو شادی کر لے۔
غل غپاڑے سے فارغ ہوکر ہم دونوں کرسیوں پر بیٹھے باقی چنڈال چوکڑی ہو ہلہ گلہ کرتے ہوئے دیکھ رہے تھے جب کامران نے اچانک اپنا مخصوص جملہ دہرایا۔
میں ہمیشہ کی طرح چپ سادھ لی تو کامران نے دہرایا۔
اب تمہیں پرانی یادوں کو بھلا کر آگے قدم رکھنا ہوگا۔
آج کامران بضد تھا لیکن میں اپنی مرحوم بیوی حمیرا کو یاد کر رہا تھا جس کے جانے کیعبد میں زندگی میں واپس تو آگیا لیکن اس کا خانہ کوئی پر نہ کر سکا یا شاید میں نے کسی کو پر کرنے ہی نہ دیا۔ دوستوں کے جانے پر میں تمام رات "گئے وقت کے صحرا میں تشنہ آرزوں کو لیے گھومتا رہا"۔
صبح چہل قدمی کرنے نکلا تو دو گھر چھوڑ کر اسے چھت پر دیکھا، نہ چاہتے ہوئے بھی اسے دیکھتا رہ گیا۔ جانے کیسے اتنے فاصلے سے مجھے اس کے چہرے پر سوگواری اور نظروں میں خالی پن کیسے نظر آگیا۔ جبھی اچانک وہ چونکی اور مجھے اپنی جانب دیکھتا پا کر اتنی زور سے چونکی کہ میں ہڑبڑا گیا اور نظریں پھیر لیں دوبارہ دیکھنے پر وہ وہاں نہیں تھی۔
دفتر سے واپسی پر بھی میں اسی کے بارے میں سوچ رہا تھا اور کسی قدر اس خیال سے کہ وہ دکھائی دے جائیگی چھت پر چلا گیا۔ اور وہ واقعی وہاں اس طرح موجود تھی جیسا کہ صبح دیکھا تھا۔ یک ٹک ایک جانب دیکھتی ہوئی، کسی اداس تصویر کی مکمل عکاسی معلوم ہوئی۔ اچانک صبح والا منظر دوہرایا گیا۔ اس کا چونک کر دیکھنا میرا ہڑبڑا کر مڑنا اور اس کا غائب ہو جانا۔ جس قدر وہ اپنا سونا پن مجھ سے چھپانا چاہتی تھی اتنا ہی اسکی کیفت اور انداز مجھے اپنے سحر میں جکڑنے لگا تھا۔
قصہ مختصر کچھ دن ایسے ہی دور دور سے نگاہوں کے تصادم کے بعد اب رفتہ رفتہ وہ بھی مجھ سے مانوس ہوتی گئی اور اب وہ میرے آنے پر بھاگتی نہ تھی بلکہ اپنی سونی سونی آنکھون کا رخ میری جانب کیے مجھے دیکھتی رہتی اور میں تمام کائنات بھلا کر ان آنکھوں کے سحر میں مبتلا رہتا جبھی اچانک میرے چونکنے پر وہ وہاں نہ ہوتی۔
ایک دن تمام ہمت مجتمع کر کے میں نے اُسے پکارا۔
سنیے
اور وہ چونکی۔ جی
آپ اتنی اداس کیوں ہیں
جی آپ سے مطلب
مجھ سے مطلب، یہی سوال تو میں کئی دنوں سے سوچ رہا تھا جو اس نے کر ڈالا
رفتہ رفتہ وقت نے ذرا رفتار پکڑی اور ہم گھلنے لگے
اچانک کسی کے زور سے دروازہ دھڑدھڑانے کی آواز سے آنکھ کھلی۔ گھڑی پر ابھی چھ بجے تھے۔ طوعا کراہاً اٹھ کر پوچھا کون۔
اللہ کے نام پر دے دے بابا
غصہ تو بہت آیا لیکن ضبط کر کہ اتنا ہی کہا ۔ معاف کرو بابا
سوالی کو خالی نہیں بھیجتے بیٹا
بکھرتے کمرے میں بٹوہ ڈھونڈ کر دس روپے کا نوٹ نکالا اور دروازہ کھول کر فقیر کی جانب بڑھایا
وہ مفلوک الحال شخص مجھے دیکھ کر ایسے چونکا جیسے بجلی کے ننگے تار کو چھو لیا ہو۔
نہ کررررر
نہ کررررر
یہ کیا کر رہا ہے
تباہ ہو جائےگا
چھوڑ دے، چھوڑ دے
بچ جائےگا، چھوڑ دے
رکھ اپنے پیسے
نہ کرررررر
نہ کرررررر
کہتا ہوا فقیر یہ جا وہ جا ہوا اور میں کچھ سمجھ نہ پایا لیکن اس الجھن میں میرے لیے دوبارہ سونا محال ہو گیا
دفتر سے واپسی پر سوچ رہا تھا نورین جو میری نئی محبت تھی اس کیلئے کو جوڑا لے جاوں لیکن وہ ہمہ وقت سفید جوڑے میں ملبوس رہتی جس کا رنگ تو کیا ڈیزائن بھی نہ بدلتا، میرے لاکھ کہنے اور روٹھنے پر بھی اسکا انداز نہ بدلا تھا۔ اچانک اسی جلالی آواز نے مجھے خیالوں سے باہر کھینچا
نہ کررررر
بول رہا ہوں نہ کر
وہ، وہ نہیں
نہ کررررر
صبح والا فقیر میرے سامنے تھا،
بابا کیا مسئلہ ہے، لو پچاس روپے ، اپنی دانست میں سوچا بابا زیادہ مال بنانے کے چکر میں ہے، پھر پچاس کا نوٹ اس کی جانب بڑھایا، لیکن اس نے فورا جھٹک دیا اور یہ بکتا ہوا چلا گیا
نہ کررررر
مجھے بلائیگا تو
نہ کررررر
پھر یہ دو تین دن تک ہوا، اچانک وہ کہیں سے نموندار ہو جاتا اور ایسے ہی بے ربط جملوں کے بعد غائب ہو جاتا لیکن میں سمجھ نہ پایا وہ کہنا کیا چاہتا تھا۔ اور پھر میں یہ سوچ کر کہ نورین منتظر ہو گی گھر آ جاتا۔
نورین میرا خیال ہے ہمیں شادی کر لینی چاہیے
کیسے کریں گے
جیسے سب کرتے ہیں
ہم ویسے نہیں کر سکتے
کیوں نہیں کر سکتے
بس نہیں کر سکتے
ایسے وقت مجھے وہ فقیر بابا کی بیٹی لگتی جس کی باتیں میرے سر سے گزر جاتیں
آخر بتاو تو کیوں نہیں کر سکتے
میرے والدین ایسا نہیں چاہیں گے، جانتے ہو میری اس حالت کا سبب بھی وہی ہیں
کیوں ایسا کیا ہوا تھا
پھر بتاونگی
مجھے کبھی وہ اپنے گھر بھی نہ آنے دیتی، والدین سے بات پر ہمیشہ وہ کئی دن ناراض رہتی۔ ایک دن میں نے فیصلہ کر لیا کہ اب یہ قصہ نمٹ جانا چاہیے۔ اور میں اس کے دروازے پر تھا۔
کو ن ہے۔ ایک نحیف آواز اور دروازہ کھلنے پر پہلے استخوانی ہاتھ نظر آیا اور پھر وہ گم صم سی بڑھیا میرے سامنے آئی۔
جی میرا نام کاشف ہے میں آپ سے دو گھر چھوڑ کر رہتا ہوں
آ جاو بیٹا اندر آ جاو
اندر داخل ہونے پر سامنے صحن میں ایک بوڑھے کو پایا جو نورین کی ہی طرح ایک جانب تکے جاتا تھا
شاید اس پورے گھر کو ایک ہی اداسی نے گھیرا ہوا تھا
کیسے آنا ہوا بیٹا
جی میں نورین کو پسند کرتا ہوں
سن کر وہ چونک پڑے، نورین کے باپ کو تو جیسے دورہ پڑگیا، غوں غوں کرتا چارپائی پر اچھلنے لگا اور اس کی ماں روئے جاتی اور مجھے تکے جاتی جیسے میں کسی اور دنیا کا باسی ہوں۔
کوئی آدھ گھنٹے بعد جب میں اس گھر سے نکلا تو میرے اٹھائیس طبق روشن تھے، اور میرے چہرے پر آنے جانے والے رنگوں کی رفتار اتنی تھی کہ کسی تیز رفتار ٹرین کی بھی کیا ہو گی۔ کیوں نہ ہوتا جو میں سن آیا تھا وہ مجھے اندر تک ہلا دینے کیلئے کافی تھا ، اسے سن کر کسی بھی مظبوط سے مظبوط شخص کا کانپ جانا یقینی تھا۔ جب مجھے فقیر بابا کے جملے یاد آئے
نہ کررررر
وہ، وہ نہیں
بچ جائیگا، چھوڑ دے
قارئین آپ یقین نہیں کرینگے میں جس سے اب تک محبت کرتا آیا، وہ کوئی انسان نہیں بلکہ ایک روح تھی، جی ہاں نورین کی روح، بوڑھے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی نورین جس پر اس کے والدین نے اپنی مرضی تھوپنا چاہی ، جو اس نے قبول تو کرلی لیکن کسی سے کئے گئے وعدوں کے خیالوں نے اسے کسی گدھ کی مانند نوچ دیا اور سوکھتے سوکھتے وہ ایک کھوکھلا درخت بن کر ریزہ ریزہ ہو گئی۔ شاید وہ ہمشہ اسی طرح اس دنیا میں بھٹکتی رہتی اگر میری محبت اسے دوبارہ زندگی کی طرف نہ لوٹا دیتی۔
کیسا عجیب جملہ ہے نا
کسی روح کا زندگی کی طرف لوٹنا
شاید محبت بھی ایسے کئی عجیب جملوں کا مجموعہ ہے
لیکن کئی سوال جو پہلے اس کے سحر میں میرے دماغ میں نہ آنے پائے تھے اب کلبلا رہے تھے
اوائل دنوں میں دو گھروں کے فاصلے پر بھی ہمارا بات کر لینا
اس کا گھر والوں سے بات پر مسلسل انکار اور بضد رہنا
اس کا ہمیشہ ایک ہی لباس میں ملبوس ہونا
اور سب سے بڑھ کر اس کی حقیقت جاننے کے بعد جو سوال مجھے پریشان کر رہا تھا وہ یہ کہ وہ تمام دنیا میں مجھے ہی کیوں دکھائی دی۔ نہ کسی اور کو نہ اس کے ماں باپ کو۔ شاید ہم دونوں ہی وقت کی اس ستم ظریفی کا شکار تھے جس میں اپنی عزیز ترین ہستی کو کسی نہ کسی وجہ سے کھویا ہو، شاید وہ سانجھا دکھ ہی تھا جس نے ہمیں دو الگ الگ دنیاوں میں رہتے ہوئے جوڑ دیا تھا۔
اسی خیال میں گم اچانک مجھے لگا جیسے سایہ سا کھڑکی سے گزرا ہو
میں نے کھڑکی کے پاس آکر دیکھا تو کوئی نہ تھا
پھر میرے ہاتھ پر کسی کا لمس پا کر جو مڑ کر دیکھا تو یہاں بھی کوئی نہ تھا
میرا حلق خشک ہونے لگا تھا۔
اس اثناء میں مجھے دالان سے کھڑکھیوں سے اس کے سسکنے کی آواز آئی
میں دالان کو بڑھ ہی رہا تھا کہ مجھے وہ اوپر والے کمرے کے دروازے میں کھڑی نظر آئی، اس کی حقیقت جاننے کے بعد اب یہ میرے لیے حیران کن تو نہیں تھا لیکن خوف زدہ ضرور تھا
ک
کون ن ن
سسکیاں
نورین
سسکیاں
گھنٹہ
بھر اس کا سایہ وہاں رہا، سسکیوں کی تال میل جاری رہی اور میں نیچے کھڑا اپنے
الفاظ کے ذخیرے کو کھنگالتا رہا لیکن ایک لفظ تک بھی برآمد نہ ہوا۔ جبھی اچانک ہوا
کے جھونکے کی مانند وہ میرے چہرے سے ٹکراتی ہوئی چلی گئ۔اور میں اپنی شل ہوتی
ٹانگوں سمیت دھڑام سے زمین بوس ہو گیا۔
صبح
دفتر جانے کیلئے نکلا تو اُس کی مہک گھر بھر میں موجود تھی، دفتر پہنچا تو فقیر
بابا باہر سر جھکائے بیٹھا تھا۔
بابا،
بابا،
لیکن
وہ جما رہا جیسے سنا ہی نہیں
بابا
میری مدد کرو
میں
سمجھ نہیں پایا
اچانک
اس نے سر اٹھا کر مجھے دیکھا لیکن اس کی نظریں اتنی خالی تھیں جیسے وہ مجھے جانتا
ہی نا ہو اور دوبارہ سر جھکا دیا میرے لاکھ بلانے پر بھی جب اس نے نا سنا تو میں
چپ چاپ دفتر چل دیا۔
آج
گھر جانے کا بالکل بھی ارادہ نہیں تھا ، لیکن جاتا بھی تو کہاں جاتا، ڈرتے ڈرتے
گھر میں قدم رکھا۔ اب تک اس کی مہک بھی فضا سے معدوم ہو چکی تھی۔ کھانا کھا کر کسی
طرح خود کو سونے کیلئے آمادہ کیا۔ آدھی رات کو اسکی مہک نتھنوں سے ٹکرائی تو آنکھ
کھل گئ۔ وہ میری جانب پشت کئے کھڑی تھی اور اس کے بال لہرا رہے تھے جب کہ وہاں ہوا
کا نام و نشان بھی نہ تھا، اُس کی سسکیاں جاری تھیں،
نورین
تم
یہاں کیوں آئی
اُس
نے مڑ کر نہ دیکھا لیکن اُس کی سسکیوں کی آواز
میں اضافہ ہوتا گیا حتی کہ مجھے لگا کہ میرے کانوں کے پردے پھٹ جائینگے۔
اچانک ہر سمت خاموشی چھا گئ، میں نے میچی ہوئی آنکھیں کھولی تو وہاں کچھ بھی نا
تھا۔ جبھی کوئی کاغذ پھڑپھڑاتا ہوا آیا اور فرش پر گر گیا۔ ہمت کر کہ بستر سے اترا
اور لائٹ چلا کر کاغذ پکڑا جس پر کچھ یوں تحریر تھا۔
"جب
میں نے پہلی بار کسی کو چاہا وہ مجھ سے چھین لیا گیا، میں کمزور تھی، رواجوں میں
جکڑی ہوئی تھی، سماج کے آگے تو سر جھکا لیا لیکن اپنی آرزوں کے آگے نہ جھکا سکی،
اب
میں کمزور نہیں ہوں، اور کوئی بندش بھی نہیں، اب میں ہار نہیں سکتی، تمہیں میرا
ہونا ہو گا کاشف، چاہے اس کیلیے تمہیں اپنی زندگی کی قربانی کیوں نہ دینی
پڑے"۔
قارئین
اس دن مجھے اندازہ ہوا ہم کسی کو کتنا بھی چاہیں، جینے مرنے کے پیماں کریں، لیکن
یہ ایک کڑوی حقیقت ہے کہ ہمارا یہ دعوی مکمل کھوکھلا اور جذباتیت پر مبنی ہے۔ میں
کسی رسالے میں پڑھا تھا کہ۔
"کچھ
لوگوں کو کھو دینے کے بعد ہم حیران ہوتے ہیں کہ ہم مر کیوں نہیں گئے، ہم جی کیسے
رہے ہیں، لیکن ہم جی رہے ہوتے ہیں، اور جیتے چلے جاتے ہیں"۔
مجھے
بھی اس پل زندگی سے بے انتہا محبت محسوس ہوئی، اور نورین سے محبت پر میری جینے
خواہش نمایاں غالب تھی۔ لیکن اس سب معاملے کا حل میرے پاس نہ تھا۔ میرے پاس اگر کو
اُمید تھی تو وہ فقیر بابا کی تھی کیونکہ صرف وہی ایک تیسرا فرد تھا جو اس تمام
معاملے کو نا صرف گہرائی سے جانتا تھا بلکہ مجھے سے بھی پہلے علم رکھتا تھا۔
صبح
میرا دفتر جانے کا کوئی ارادہ نہ تھا لیکن فقیر بابا کی تلاش کی خاطر جیسے تیسے
خود کو تیار کیا اور چل پڑا، دفتر کے پاس جا کر دیکھا تو وہاں بابا نہیں تھا۔ دفتر
میں بھی بار بار باہر نظر دوڑاتا رہا لیکن وہ نہ دکھائی دیا۔ شاید قدرت بھی میرا
ساتھ دینے پر آمادہ نہ تھی، شاید میرے دن گنے جا چکے تھے۔ میرا دل ڈوبتا چلا گیا
جبھی میں سوچا آج میں گھر جانے کی بجائے کامران کے گھر چلا جاوں۔
کچھ
ہی وقت کے بعد میں اس کے دروازے پر تھا، دروازہ کھولتے ہی وہ گرم جوشی اور استعجاب
کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ مجھے گلے ملا لیکن یک دم چونک پڑا۔
یار
کاشف یہ تمہیں کیا ہوا ہے۔ بیمار ہو کیا؟ کیا مسئلہ ہوا ہے۔ بتایا بھی نہیں۔ چیک
اپ کروایا۔ یار عجیب ہو۔
کچھ
نہیں یار بس کام سے تھکا آیا ہوں نا۔ میں اسے کچھ نہ بتانے کا تہیہ کر لیا تھا
کیونکہ وہ بال بچے دار آدمی کہیں میری وجہ سے کسی مصیبت میں نہ پھنس جائے۔ مجھ سے
کچھ نہ اگلوا سکنے کے بعد میری کیفیت دیکھتے ہوئے اُس نے مجھے بیٹھک میں سونے
کیلئے کہااور بستر کا انتظام کیا۔ رات خیرت سے گزرنے پر ابھی اطمینان کر ہی رہا
تھا کہ دائیں طرف پڑھے پرچے پر نظر پڑھی۔
"بھاگ
کر کہیں نہیں جا سکتے کاشف،
تمہیں
بتایا تھا کہ اب میں حدوں کی پابند نہیں
بہتر
ہے میرے پاس ہمارے گھر میں رہو
تاکہ
دوسروں کو پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے"
یقینا
اب میرے پاس اس کے علاوہ کوئی راہ نہیں تھی کہ میں دوسروں کی زندگیوں کو خطرے میں
ڈالنے کی بجائے اپنے گھر میں اپنی آنی والی موت کا انتظار کروں۔ اس ادھیڑ بن میں
دفتر پہنچ گیا۔ سر جھکائے دفتر میں داخل ہو رہا تھا کہ قہقہوں کی آواز آئی
ہا
ہا ہا ہا
مجھے
ڈھونڈ تا ہے
جب
کہا تب سنا نہیں
اب
مجھے ڈھونڈتا ہے
مجھ
پر یقین ہے
اُس
پر یقین ہے
لیکن
اُس پر نہیں
جس
کے ہاتھ میں ڈور ہے
جا
اُسی کے پاس جا
صرف
وہی تیری مدد کر سکتا ہے
بابا
لیکن مجھے رستہ دکھاو
سب
رستے اُسی کو جاتے ہیں
چلنے
کی کوشش کر
یہ
کہہ کر وہ چل دیا، میں دیوانوں کی طرح اس کے پیچھے بھاگا، سب لوگ مجھے دیکھ رہے
تھے، جو سوٹ بوٹ میں ملبوس ایک مجہول سے فقیر کے پیچھے بھاگ تھا۔ بابا کے پیچھے اگلا موڑ مڑا تو خالی سڑک
میرا منہ چڑا رہی تھی۔ اور میری کیفیت بالکل ایسی تھی جیسے کسی ماں کے چاروں بیٹے
ایک ہی حادثے میں چل بسے ہوں۔ پھر وہاں موجود لوگوں نے ایک سوٹڈ بوٹڈ آدمی کو بیچ
چوراہے پھوٹ کے روتے دیکھا۔ مجھے ہوش نہیں میں کب سنبھلا، کب وہاں سے چلا، کب گھر
آیا، کب سو گیا، دفتر کا کیا ہوا، میری دیوانگی کی قصوں کا کیا ہوا۔ میری آنکھ
ازان کی آواز پر کھلی۔ اٹھ کر دیکھا تو پانچ بجے عصر کا وقت تھا۔ اور بابا کے جملے
کانوں میں گونج رہے تھے
جا
اُسی کے پاس جا
سب
رستے اُسی کو جاتے ہیں
چلنے
کی کوشش کر
مسجد
میں جاتے ہوئے ندامت کی انتہا تھی۔ ندامت گناہوں کی نہیں، اپنی مطلب پرستی کی تھی،
جب اُس نے مجھے بھوکا رکھا تب بھی میں اُس کی طرف نہ گیا، جب اُس نے مجھے سے
والدین واپس لیے میں اُس سے شکوہ ضرور کیا لیکن جب اُس نے مجھے نعمتیں دی، گھر
دیا، کاروبار دیا میں کبھی اُس کا شکر نہیں کیا، اور آج میں زندگی کی بھیک لیے اُس
کے در پر کھڑا تھا۔ اور میرا قدم اُس کی آغوش کی جانب بڑھتا چلا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
….
اس کے ساتھ اپنا دکھ بانٹ کر پر سکون ہو چکنے کے بعد میں پر
امید انداز میں مسجد سے نکلا، انسان بھی عجیب ہے تکلیف آتی ہے تو اُس کو پکارتا ہے
یا اُس سے شکوہ کرتا ہے، لیکن خوشی آنے پر مست ہو جاتا ہے، باہر نکلا تو فقیر بابا
کو گلی کے قدرے سنسان حصے میں کھڑے پایا، میں لپک کر اُس کے پاس پہنچا اس سے پہلے
کہ میں کچھ کہتا۔وہ بولا
وہ تیری مدد کرے گا
تو اُس کے پاس ضرورت سے گیا
مطلب پرستی میں گیا
لیکن اُسے تیرے مانگنے سے مطلب ہے
وہ تجھے بلائے گی
تو چلا جانا
باقی رب کی مرضی
اتنا کہہ کر بابا ایک جانب چل دیا، اور میرے قدم کسی انجانی
قوت نے جکڑ لیے جیسے مجھے معلوم ہو کہ مجھے یہیں رُکنا ہے۔
،
رات کے تیسرے پہر اُس کے خوشبو نے جگا دیا، وہ اندھیرے کونے
میں کھڑی تھی، لیکن میں جانے کیسے اُس کو بخوبی دیکھ سکتا تھا ، اُس کے چہرے کی
سوگواری، بہتے آنسو، سفید جوڑا، بکھرے بال، وحشت ناک آنکھیں۔
کاشف تم نے بہت غلط راستہ اختیار کیا ہے
اب ہمیں بہت جلد ایک ہونا ہوگا
میں مزید نہیں رُک سکتی
چلو
ایک خوف نے مجھے منجمد کر دیا ، اور میں لب بھی نہ ہلا سکا،
پسینے کے قطرے میرے ماتھے سے ہوتے ہوئے بستر میں جذب ہونے لگے، وہ مجھے بلا رہی
تھی، جبھی مجھ میں سے میرا عکس نکلا اور بسترے کے پاس کھڑا ہو گیا، اور غیر ارادی
طور پر اُس کی جانب کھنچنے لگا۔ جبکہ میں حرکت بھی نہیں کر پا رہا تھا اور میرا
عکس میری روح وہ لیکر جا رہی تھی۔ یکلخت میری تمام حسیات میری روح میں منتقل ہو
گئی اور اب میں خود کو بستر پر بے جان پڑا دیکھ رہا تھا اور وہ مجھے کھینچ رہی تھی۔
میں تمام تر قوت سرف کرکے بھی خود کو روک نہیں پا رہا تھا جبھی بابا کی ہدایت میرے
کانوں میں گونجی، اس کے جملے مجھے یاد آئے کہ وہ مجھے بلائے گی اور میں چلا جاوں
باقی رب کی مرضی۔
میں نے خود کو رب کی مرضی پر چھوڑ دیا، نورین ہوا میں معلق
میرے آگے چلنے لگی اور میں پیچھے تھا، گھر سے نکل کر جب ہم باہر آئے تو رات کے اس
پہر تمام گلیاں ویران تھی، جیسے تمام علاقے کو سانپ سونگھ گیا ہو، عجیب وحشت کا
عالم تھا، اُس کا رخ شہر سے باہر کی طرف ہوا تو مجھے لگا شاید رب کی یہی مرضی ہے
کہ میرا خاتمہ ہو جائے، میں تو کلمہ بھی نہ پڑھ پایا تھا، شاید میری دعائیں رد ہو
گئیں، لیکن نہیں دعائیں رد نہیں ہوئیں تھیں۔
پیاسی، وحشت ناک اور غصیل روح جو مجھے لیجانے کو بے چین
تھی، اُس کا راستہ فقیر بابا نے روک لیا تھا، نورین بابا کا سامنا کرنے سے کترا رہی
تھی اور دائیں بائیں چکرا رہی تھی لیکن نہ جانے وہ کیا تھا جو اُسے نکلنے نہیں دے
رہا تھا۔
تجھے کسی کی زندگی لینے کا کوئی حق نہیں
تو نے اپنی زندگی جیسی بھی تھی جی لی
اب تجھے اپنی زندگی میں جانا ہو گا
جا چلی جا
نورین کی سسکیاں اب باقاعدہ رونے میں بدل چکی تھین اور وہ
بابا سے بھیک مانگ رہی تھی،
مجھے زندگی میں کچھ نہ ملا
اب مجھے خالی نہ رہنے دو
،
تو خدا کے کاموں میں مداخلت کرنے والی کون ہوتی ہے
بابا کی جلالی آواز چاروں طرف گونج اٹھی
دنیا جیسی گئ سو گئ اب آخرت کی فکر کر
جا اپنے ٹھکانے پر جا
تجھے مہلت دے رہا ہوں
خود چلی جا
خود چلی جا
لیکن وہ کسی طور جانے کا نام نہیں لے رہی تھی
میں کھڑا وہاں تماشہ دیکھ رہا تھا
خوف کی لہریں میری روح میں دوڑ رہی تھیں
ایسا منظر میں کبھی کسی ڈراونے افسانے میں بھی نہ پڑا تھا
جو میرے ساتھ بیت رہی تھی۔
جبھی بابا کو اپنا آخری فیصلہ کرنا پڑا جس پر میں بھی نورین
سے رکھنے والی انسیت کی وجہ سے کانپ گیا،
جانے بابا نے ایسا کیا کام کیا کہ اُس کی روح چھلنی سی ہو
لگی، تکلیف کی شدت سے اس کی چیخیں چاروں طرف گونجنے لگیں،
اور وہ ذرہ ذرہ بن کر بکھر گئی، وہ جو اپنی زندگی میں بھی
کرچی کرچی ہوئی، آج اُس کی روح بھی کئی ذروں میں تقسیم ہو کر ہوا میں معلق ہو گئی،
اس کی درد ناک چیخیں وہیں ہواوں میں دیر تک گونجتی رہیں، چاروں طرف سناٹا تھا وہاں
نا وہ تھی نا بابا صرف میں تھا، عجیب غنودگی میرے حواسوں پر چھانے لگی اور سب مدھم
ہوتا گیا۔
صبح اذان کی آواز سے
آنکھ کھلی تو میں اپنے بستر پر تھا۔ یقینا جو رات ہوا وہ خواب نہیں تھا ،
آج اُس کی مہک نہیں تھی، میں جلدی سے وضو کیا اُس رب کا شکر کرنے چل دیا، جس نے
میرا تب بھی ساتھ دیا جب کہ میں نے اُسے نہ پُکارا، اور جب پُکارا تو مفاد کیلئے
پُکارا۔ آج میں وہ پہلا سجدہ کرنے جا رہا تھا جو صرف اور صرف بندگی کیلے تھا۔ اور
میرے قدم باہر کی جانب چل دیے۔
0 تبصرے:
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔