بشری نے ہمیشہ یہ سوچا کہ وہ اپنا ہمسفر اسے چنے گی جو اس
کا خیال رکھے، اس کی قدر کرے، اسے سر آنکھوں پر بٹھا کہ رکھے۔ اس کی عزت کرے اور
اس طرح زندگی پیار محبت سے گزر جائے۔ کئی امیر کبیر رشتے بھی اسی لیے منع کر دیے
کہ اسے لگا کہ وہ معاشی امیر تو ہیں لیکن دل کے امیر نہیں۔ اس کی ہمجولیاں، چچا و
خالہ و تایا زادیاں ہمیشہ حیران ہوتیں کہ یہ کیا بلا ہے جو جو ایسے رشتے ٹھکرا
جاتی ہے جن کی تلاش میں آجکل ہر لڑکی اور اس کے والدین مارے مارے پھرتے ہیں۔ لیکن
بشری نے ٹھان لی تھی کہ وہ اپنا ہمسفر اپنے معیار سے چنے گی۔
ایسے میں ان کے گھر اشفاق میاں کا رشتہ آیا، سیدھے سادھے
آدمی تھے، واجبی سی شکل و صورت۔زیادہ مال و دولت نہ تھا۔ ادھر ادھر سے پتہ کروایا
تو لوگا اچھے لگے لیکن معاشی حیثیت خاص نہ تھی۔ اس لیے یہ طہ ہوا کہ منع کر دیا
جائے بھئ زندگی گزارنی ہے آخر۔ لیکن جب بشری نے اس رشتے کیلیے حامی کر لی تو
خاندان بھر میں چہ میگوئیاں ہونی لگیں۔ لیکن بہر حال رشتہ طے کر دیا گیا۔ بشری
دعائیں مانگتی رخصت ہو گئ کہ یا اللہ جو سوچ کر میں نے یہ حامی بھری میری خواہشات
پوری کر دینا۔
قبولیت کی گھڑی تھی یا قسمت کی، بشری نے جیسا سوچا تھا
اشفاق میاں بالکل ویسے تھے۔ ہمیشہ اس کا خیال رکھتے، عزت، پیار، چاہت سب دیتے،
مالی حالات تنگ تھے لیکن پھر بھی جو کچھ ہوتا جتنا ہوتا پہلے بشری کا کرتے اور
گنجائش بچتی تو اپنے لیے بھی کر لیتے۔ دن گزرتے گئے اور ایک سال گزر گیا، اللہ نے
ایک خوبصورت بیٹے سے بھی نوازدیا۔ بشری اپنے فیصلے پر خوش اور مطمئن تھی۔ گو جب وہ
اپنی دوسری ہمجولیوں کو دیکھتی کہ کیا عیش و عشرت میں ہیں تو زرا ہوک اٹھتی لیکن
اسے خوشی تھی کہ اتنا خیال رکھنے والا شریک حیات تو ہے۔
اس عید پر اشفاق اسے میکے چھوڑ آئے۔ تمام خاندان اکھٹا تھا،
لڑکیاں بالیاں الگ اپنی باتوں میں مگن تھین اور بڑے اپنی گفتگو میں۔ جبھی اس کی
چچا زاد نے اچانک کہا۔
بشری تو نے جلدی کر دی
کیا مطلب سکینہ، کیسی جلدی کر دی۔ بشری کچھ سمجھ نہ پائی
ارے تم اتنی خوبصورت، پڑھی لکھی، سلیقہ مند لڑکی تھی، تمہیں
ایک سے ایک خوبصورت اور بہتر رشتہ مل جاتا۔ زرا صبر تو کیا ہوتا۔ابھی تمہاری کون
سا عمر نکل رہی تھی۔
دوسری لڑکیوں نے بھی کچھ اسی طرح کے تاثرات کا اظہار کیا،
بشری نے گو کہہ دیا کہ مجھے چو چاہیے تھا مل گیا، اور وہ
واقعی اس پر ہمیشہ خوش رہی، لیکن نہ جانے کیوں انکی باتوں سے دل میں پھانس سی چھب
گئی۔ ان کے اچھے کپڑے اور اپنے معمولی لباس اور ضرورتوں کیلیے پریشان رہنا کھلنے
لگا۔خود کو سنبھالنے لگی کہ میں جو چاہا تھا وہ تو ملا اب نا شکری کیوں کروں۔ شام
کو اشفاق میاں نے فون کیا تو بات بھی واجبی سی کی، وہ الگ پریشان ہو گئے کہ طبیعت
تو ٹھیک ہے۔
ہفتہ بھر میکے رہی ، واپسی پر دل میں اپنے فیصلے کی پھانس
لیے اپنے گھر واپس آ گئی۔
اشفاق، ہم کب تک یونہی رہیں گے، کرائے کے گھر میں، آپ کوئی
اچھا سا کاروبار کیجِئے،
ارے یہ آج ہماری بیگم کیا باتیں لیے بیٹھ گئی، جناب آپ فکر
نہ کرو اللہ سب اچھا کرے گا۔ آپ بس اپنا اور منے میاں کا خیال رکھو باقی ہم پر
چھوڑ دو۔ اللہ رزق تو دے رہا نا، تندرست اولاد ہے، ہم آپ کا خیال رکھتے ہیں، جو بن
پڑے وہ کرتے ہیں، اللہ بہتری بھی کرے گا۔
رفتہ رفتہ کچھ دنوں میں سب کچھ معمول پر آ گیا، اور اشفاق
میاں کی محبت نے وہ پھانس نکال دی جو وہ لیکر آئی تھی۔ چھ ماہ بعد دوبارہ میکے
جانے کو دل مچلنے لگا، اپنوں کی یاد ستانے لگی تو اشفاق میاں نے بھی اپنی لاڈلی
بیگم کی خوشی دیکھتے ہوئے اجازت دے دی۔
اپنے سامان کے ساتھ بشری اب کی بار بھی وہ پھانس لیے واپس
اپنے گھر موجود تھی۔ یہ جملہ بار بار اس کے کانوں میں گونجتا رہتا۔
بشری تو نے جلدی کر دی
بشری تو نے جلدی کر دی
ایسے میں اُسے صرف اپنا قبول صورت خاوند، کرائے کا گھر،
تاریک مستقبل، دبتی خواہشیں اور چلتے فاقے دکھائی دیتے۔ اشفاق میاں کی تمام چاہت،
اپنائیت، قدر، عزت اور خیال کہیں منہ چھپا لیتا۔ اس بار بھی شروع کے چند دن میاں
بیوی کی چپقلش رہی لیکن جلد ہی اشفاق کی کوششوں سے حالات پہلے جیسے ہو جاتے۔ پھر
یہ پھانس رفتہ رفتہ جڑ پکڑے لگی۔ بشری کی ایک جنبش پر جان دینے والا اشفاق اب اسے
برا لگنے لگا۔ اسے واقعی احساس ہونے لگتا کہ اس نے فیصلہ کرنے میں جلدی کر دی۔
موازنہ کرنے کیلیے اس کی ہم عمر، سہیلیاں اور ہمجولیاں بھی تھی جو ہر طرح کی
آسائشوں میں زندگی بسر کرتیں۔
اشفاق میاں بہت سمجھاتے کہ جب میں جو ہوں تمہارا خیال رکھتا
ہوں، اور بہتری کیلیے کوشش بھی کر رہا ہوں، رفتہ رفتہ اللہ حالات بھی بہتر کر دے
گا۔ لیکن بشری کے دل میں لگایا گیا پودا اب درخت بن چکا تھا۔ اور اس کا پھل بہت
کڑوا تھا۔ جو کہ بشری کے لہجے سے ٹپکنے لگتا۔ اس بار میکے گئی تو واپس آنے کا نام
نہ لیا۔ صاف کہلا بھیجا کہ اب وہ نہیں آنے والی۔ اشفاق میاں نے بہتری منتیں کیں،
بہت پیغام بھیجے، خود بھی چل کر آئے لیکن دوسروں کے لگائی آگ اب پھیل چکی تھی اور
بشری کے دل سے محبت کی بیل کو جلا کر راکھ کر چکی تھی۔ بالآخر نوبت طلاق تک آ
پہنچی۔
بشری کو لگا اب اس کی زندگی میں سکون ہی سکون ہو گا، کسی نے
اس کا ہاتھ نہ بھی تھاما تو بھی وہ پڑھی لکھی ہے اپنا اور اپنے منے کا خیال رکھ
سکتی ہے۔
آہستہ آہستہ اسے محسوس ہونے لگا کہ اب خاندان والوں کا رویہ
پہلے جیسا نہیں۔ وہ اب اس سے کتراتے ہیں۔ا ور تو اور اپنے گھر میں بھی اسے وہ
پذیرائی نہ ملتی۔ اس کے چچا،تایا اور خالہ زادیاں بھی اس کے پاس زیادہ نہ بیٹھا
کرتی یا شاید انہیں بیٹھنے نا دیا جاتا۔ اسے لگا وہ تو اس فیصلے سے خوش ہونگی،
انہی کی ہاں میں ہاں ملا کر تو اس نے اتنا بڑا فیصلہ لیا تھا لیکن اب وہ ہی اس سے
کترا رہی تھیں۔ رفتہ رفتہ اس کا غرور ٹوٹنے لگا، اس اشفاق کی باتیں، اس کا خیال
رکھنا یاد آنے لگا، وہ لوگوں کے رویے اور اس کے جذبات کا جب موازنہ کرتی تو اسے
ہمیشہ لگتا کہ پہلے شادی کا فیصلہ اس کا درست تھا لیکن اب اس فیصلے میں اس نے جلدی
کردی۔ اب اسے تمام عمر سسکنا تھا اور یہی سوچنا تھا کہ
بشری تو نے جلدی کردی
ایسی کئی بہنیں ہمارے ارد گرد ہیں، جو دوسروں کی باتوں میں
آ کر اپنے گھڑ اجاڑ لیتی ہیں، اور کئی اجاڑنے کے قریب ہیں۔خدارا اپنے گھر پر توجہ
دیجِئے،اگر آپکا ہمسفر آپکی قدر کرتا ہے تو اس سے بڑھ کر اور کوئی نعمت نہیں۔ یاد
رکھیں جو نصیب میں ہو وہ مل کر رہتا ہے اور جو نصیب میں نہ ہو وہ آ پ کہیں سے نہیں
لا سکتے کسی صورت نہیں۔ اسی لیے جو ہے اس کی قدر کیجئے۔ تاکہ کل کو آپ کو یہ نہ
سوچنا پڑے کہ آپ نے جلدی کردی۔ وہیں ہمارے بھائیوں سے بھی گزارش ہے کہ گھر کا
ماحول ایسا بنائیں اور اپنی شریک حیات کو اس کی اہمیت کا احساس دلایا کریں۔ صرف
گھر میں راشن پانی، اور سہولیات پورا کر کہ اپنے آپ کو فرض سے سبکدوش مت سمجھیں ۔
اسی کے ساتھ اپنے باقی رشتوں کو بھی ساتھ لیکر چلیں۔ اور سب احباب سے بھی گذارش ہے
کہ اپنی گفتگو میں اس بات کا خیال رکھا کریں کہ آپ انجانے میں کسی کے ہنستے بستے
گھر، دوستی، یا کسی بھی
رشتے میں دڑاڑ ڈالنے کا باعث تو نہیں بن رہے۔
تحریر:
عمیرعلی
0 تبصرے:
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔