کافی دن سے کاروبار بہت مندہ چل رہا تھا، خدا بیڑہ غرق کرے
ان دہشت گردوں کا، جن کے وجہ سے مجھ غریب کا چھوٹا موٹا کام بھی دشوار ہو چکا تھا۔
ملک پر پہرہ اتنا سخت تھا کہ ایک سوئ تک ادھر اُدھر کرنا ممکن نظر نہ آتا تھا۔جیب
میں فقط آخری سات سو پچیس روپے بچے تھے۔ انہیں سوچوں میں گم فٹ پاتھ پر چل رہا تھا
کہ اچانک میری تجربہ کار نظریں پارکنگ ایریا میں پڑی، اور مجھے اُمید ہوئ کہ آج
کچھ دال دلیا کا انتظام ہو جائے گا۔ ایک پُرانی سی موٹر بائیک اُس عظیم الشان
پلازہ کے سامنے یوں کھڑی تھی جیسے اُس وجیہہ و دراز قد عمارت کو نظر بد سے بچانے
کیلئے تھورا سا میلا کیا گیا ہو۔ سونے پہ سہاگا، اُس بائیک میں تالا تو دور، تالا
لگانے کی جگہ بھی نہیں تھی، اور قریب کوئ ایسا نفس بھی دکھائ نہیں دے رہا تھا جو
اُس کا دعویدار ہو۔ گو سواری کی حالت کافی خستہ تھی لیکن ہمیں کیا بھئ ہمیں تو بس
اسکو اُٹھانا تھا اور چور بازار میں جا کر پیچنا تھا۔
۔
چاروں طرف سے اطمینان پا کر اُس پر ایسے سوار ہوئے گویا جنم
در جنم سے ہماری ہی ہو۔ یہ تو پہلے ہی بھانپ لیا تھا کہ تالے کی طرح اسکا مالک
چابی کی جھنجھٹ بھی نہی پالنا چاہتا اورگاڑی ڈائیریکٹ پر ہی سیٹ کی ہوئ ہے، بس کک
لگا دی۔ ارے یہ کیا۔ یہ تو گویا اسٹارٹ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ دوسری کک،
تیسری کک، چوتھی کک۔ اب تو پسینے آ گئے، چھوڑ کر بھاگنے کا سوچا تو ایک صاحب مدد
کیلئے آ گئے، اب وہ کیا جانے کہ اُنکی مدد مجھے کتنی بھاری پڑ سکتی ہے۔ لیکن قدرت
میرے ساتھ تھی، اُن صاحب کی پہلی کک کامیاب ہوئ اور پھٹ پھٹی اسٹارٹ ہو گئ۔ عجلت
میں جناب کا شکریہ ادا کیا اور اپنا "رزق" لیکر چل دیے۔
۔
دو موڑ ہی کاٹے ہونگے کہ موصوفہ گھررررررر کر کہ بند ہو
گئیں۔ لاکھ کوشش لیکن اُمید ندارد۔ خیر اب خطرے سے کافی دور تھا سو اطمینان سے
گاڑی کو گھسیٹنا شروع کیا۔ گویا گرمی میں پسینہ بہا کر، اس کمائ کو خون نہ سہی
پسینے کی کمائ تو بنا ہی رہا تھا۔ آدھ گھنٹا بعد جب ہمت ختم ہونے کو تھی تو ایک
مکینک کی دُکان دیکھ کر مانو عید کا چاند دیکھ لیا۔ گاڑی جیسے ہی دوکان کے سامنے
لگائ تو دوکاندار نے پہلے بائیک اور پھر مجھے عجیب نظروں سے دیکھا جیسے اس موٹر
سائیکل کا مالک ہونا جرم ٹھرا۔
۔
میں اپنی صفائ میں خود ہی بولا کہ یہ اسٹارٹ نہیں ہو رہی۔ ۔۔۔
اوہ اچھا میں دیکھتا ہوں۔ لیکن لہجہ ایسا جیسے بول رہا ہو۔ چلتی تھی کیا؟ ۔ سب طرف
سے دیکھ بھال کر بولا۔ پانچ سو روپے لگیں گے۔ پہلے تو پریشان ہوا، پھر سوچا ایک
بار چل جائے کمبخت، بیچ کر پیسے کھرے کرونگا۔ اور پھر نیا سوٹ ہو گا، بے فکری ہو
گی، یار بیلی ہونگے، موج ہو گی۔ انہیں خیالوں میں وقت کا پتا نہ چلا اور موٹر
اسٹارٹ ہو گئ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پٹرول کم ہے استاد۔ آگے جا کر ڈلوا لینا، مکینک کا تنبہی
جملہ میری باقی بچی ریزگاری پر نظریں جمائے بیٹھا تھا۔ تیل والے پمپ سے دو سو کا
تیل ڈالا اور چور بازار روانہ ہوا۔
۔
باقی شہر
کے پہرہ کا اثر یہاں کچھ ماند تھا، اور یہاں کی روایت کے مطابق سامان آ اور جا رہا
تھا۔ میں بھی بائیک لیکر ایک آدمی کے پاس گیا جو مجھے پہلے سے جانتا تھا، خوب آو
بھگت کی لیکن "مال" دیکھ کر ایسے منہ بنایا جیسے اچانک گھر میں داخل
ہونے پر اپنے کمرے میں زوجہ کیساتھ
کسی اجنبی کو پا لیا ہو۔ یہاں سے ٹکا سا جواب لیکر دوسری جگہ گیا تو وہی کہانی
دوہرائ گئ۔ جب تیسرے مقام پر بھی پُرانی فلم رے پلے کی گئ تواپنے ارمان اور باقی
بچے پچیس روپے لیکر، شکستہ دل کے ساتھ گھر کو نکل دیا۔
۔
اگلے دن
دوست سے پانچ ہزار شام تک کے لیے مانگے، تا کہ منحوس پر لگا کر چمکا دمکا کر بیچوں
اور جان چھڑاوں۔ تمام تر خطیر رقم کھا کر کمبخت کچھ بھلی لگنے لگی تھی۔ نظر
اُتارتے ہوئے براجمان ہوا ہی چاہتا تھا کہ پیچھے سے کسی نے چپت رسید کی اور کالر
پکڑا۔ مُڑ کر دیکھا تو ایک بڑے میاں کو پایا، ساتھ میں دو نوجوان ہٹے کٹے جو میاں
جی سے کافی مشابہت رکھتے تھے منکر نکیر کی طرح دائیں اور بائیں موجود تھے۔ بولے
پکڑو چور کو۔ اس سے آگے کی کہانی تو آپ جانتے ہیں جو آج تک غریب چوروں کے ساتھ
ہوتا آیا ہے،، جس جس کا داو لگا، اُس نے حسب توفیق کار خیر میں حصہ لیا۔ تب سوچا
کاش ہم بھی کوئ بڑے مجرم ، افسر ، سیاستدان یا بڑی مچھلی ہوتے پھر دیکھتے ایک ایک
کو۔ ٹھکائ سے فرصت پا کر نگاہ اُٹھائ تو خود کو تھانہ میں موجود پا اپنے نصیب کے
تابوت میں آخری کیل ٹھونکتے ہوئے محسوس کیا۔
۔
حوالدا ر
صاحب: اس چور کے خلاف مقدمہ درج کرو، ایک تو ہماری عزیز کو لے اُڑا اور دوسرا
دیکھو اُسکا "کیا حال" بنا رکھا ہے۔
گویا
میرے پانچ ہزار سات سو روپے خرچ کر کہ اُنکی موٹر کو بگاڑ دیا تھا۔ میں کہا میاں
صاحب جو سزا دلوا دو، لیکن جو رقم میں خرچ کر چکا ہوں وہ دے دو۔ اس سوال کا جواب
میاں صاحب کی بجائے حوالدار صاحب نے تفصیلا سلاخوں کے پیچھے ایک گھنٹہ تواضع سے
دیا۔
بعد میں
کیا ہوا، وہ بعد میں بتاوں گا، ابھی اس بُک میں بہت سے پیجز باقی ہیں۔
تحریری
کوشش: عمیر علی
0 تبصرے:
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔