تازہ ترین
لوڈ ہو رہا ہے۔۔۔۔
Thursday, 20 July 2017

ہلکی پھلکی مختصر تحریر

July 20, 2017
عمیرعلی
 چونڈہ باہر جانے والی ان پگڈنڈی نما سڑکوں پر تپتی دوپہر پر عموما ان وقتوں میں کوئی خاص آمد و رفت نا ہوتی تھی۔ ہاں جب چھٹی کا وقت ہوتا قریبی گاوں سے آنے والے بچے بچیاں خراماں خراماں گزرتے تو ایک میلہ سا لگ جاتا۔
جاناں والی، وجید والی، دھپ سڑی، اسلام پورہ، ریتلا ٹھے جیسے قریبی گاوں جن کا مرکز چونڈہ  ہی ہوتا۔ چھٹی کے وقت چونڈہ سے نیلی قمیضوں اور سفید شلواروں والی بچیاں اور گرے پینٹ اور تقریبا سفید بشرٹ والے بچے ایسے اطراف میں پھیلتے جیسے پندرہ بیس مرغیوں کے درمیان پتھر پھینکو تو پخ پخ کرتی جدھر منہ ہو سرپٹ بھاگ اٹھتی ہیں۔ تقریبا سفید بشرٹ اس لیے کہ گھر سے تو صبح سفید لے کر نکلتے لیکن پھر "ادی چھٹی ویلے" "پھڑن پھڑائی" " بندر قلعہ" "گلی ڈنڈہ" "بنٹے یعنی قنچے" جیسے اہم امور سر انجام دینے کے بعد عموما بشرٹ کا رنگ مٹیالا سا ہو جاتا۔
جو جنگجو طبیعت کے لوگ جنہوں نے آگے جا کر "میدا بدمعاش" یا میجر، کرنل ٹائپ کے سپنے پالے ہوئے تھے انکی بشرٹ تو آپس میں جھپیاں، مکیاں اور لاتیں چلا کر مکمل براون رنگ کی ہو جاتی۔ مائیں کسی حسب و نسب کے بغیر ان سب میدوں شیدوں کے گھر آنے پر کان کھینچھ  کر لال کرتیں اور کچھ ہونہار سپوتوں کا استقبال تو دیسی متہر سے ہوتا۔
ہم خود کئی بار آوارہ گردی کے کارنامے کے بعد نا صرف اپنی نانی اور والدہ سے شاندار استقبالیہ پروگرام وصول کر چکے تھے بلکہ کئی بار ہماری نانی محترمہ مرحومہ کی پر زور فرمائش پر محلہ کی کچھ بزرگوں نے بھی کار خیر میں بھرپور حصہ ڈالا۔ بھلے وقت تھے محلہ کے وڈے وڈیروں کا راج محلہ کے ہر بچے پر چلتا تھا۔ اکیسویں صدی کی طرح سگے باپ کے سامنے بھی تو تڑاں کرنا ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔
ایسی ہی ایک دوپہر کو سکینہ، رفیقاں، عنبرین اور خالدہ اپنے گاوں کو جانے والی پگڈنڈی پر جا رہی تھیں۔ چاروں کی اماں کے ہاتھ سے بنے ہوئے کپڑے کے بستے باریک ڈوریوں کے سہارے پشت پر لٹک رہے تھے۔ رنگ سانولے تھے لیکن دیسی خوراکوں کی بدولت سانولے رنگ پر بھی ڈوریوں سے پڑنےو الے نشان ہمیشہ لال ٹماٹر ہی ہوئے۔ اور پانچ پانچ میل صبح شام کی پریڈ کے باوجود گھر جاتے ہیں کپڑے بدل کر اماں کے ساتھ ہانڈی چولہا کرنے پر بھی کبھی ناک بھوں نا چڑھایا۔
کبھی یہ نا کہاں
"اوہ مما۔ یو نو، آی ایم ویری ٹائیرڈ۔ سر شفیق نے آج اتنا لمبا لیکچر دیا کے آئی کڈ ناٹ ڈو اینی تھنگ مور۔ پلیز میرے لیے جوس بنا کر کمرے میں لائیں۔ کوئیک مما"۔
یہ چاروں نے کچی جماعت سے ہی ساتھ پڑھا اور چاروں پکی سہیلیاں تھیں۔
"نی عنبرین۔ یہ منڈے آپس میں کیا باتیں کرتے ہیں۔"
"اوہو۔ سکینہ وہی جو ہم کڑیاں آپس میں کرتی ہیں۔"
ہااااا کنے بے شرم ہوتے ہیں نا۔
کھی کھی کھی تینوں کھلکھلا کر ہنسیں
اور سکینہ کچھ نا سمجھتے ہوئے خجالت محسوس کرنے لگی۔
"کی گل اے۔ اج تے بڑی ہاسیاں کھیڈیاں ہو ریاں نیں"۔ ٹرن ٹرن ٹرن
سائیکل کی گھنٹی سنتے ہی وہ سمجھ گئیں کہ پنڈ کا آوارہ بالا روز کی طرح آ دھمکا ہے۔
وے بالے جا کے اپنا کم کر۔
رفیقاں جو قدرے نڈر تھی۔ غصے سے بولی
نی نا کر۔ کیوں اس کے منہ لگدی ہے
روز کی طرح خالدہ ممنائی
یہ ایک نمبر کا آوارہ روز دیہاڑے تنگ کردا ہے۔ کسی دن اپنے پیو کو بتا دیا نا۔ پٹھے وڈن والی درانتی لے کے آندراں کڈ دے گا ایدیاں۔ فر شاپر وچ پا کہ چکدا پھرے گا۔
رفیقاں غرائی
بس عقل نہیں اے اینوں، دل دا برا نہیں لگدا مینوں۔ لے میری گلی آ گئ میں چلتی ہوں۔ کہتے ہوئے خالدہ اپنے راہ ہو لی۔
ففے کٹنی۔ مجھے لگتا ہے۔ اسی کے لیے آتا ہے جو اتنی ہمدرد بنی پھرتی ہے۔  لو میں بھی چلتی ہوں۔
رفیقاں کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا تھا۔
یہ جو رفیقاں ہے نا بہت میسنی ہے۔ میرے نالوں دو سال وڈی اے، مجھے باجی باجی کہتی ہے۔
عنبرین نے سکینہ کے سامنے اپنا دکھڑا بیان کیا
چل چھڈ اسی دونوں تو پکی سہیلیاں ہاں نا۔ یہ دونوں تو لڑتی رہتی ہیں۔
ہاں، چل میرا گھر آ گیا۔ صبح ملتے ہیں۔
سکینہ کے جانے کے بعد عنبرین اکیلی کچھ دور آگے اپنی گلی کی جانب بڑھتے ہوئے سوچ رہی تھی۔
شکر ہے کسی نے بالے کا دیا ہوا لال رومال میری چوپڑی ہوئی گت پر نہیں دیکھا۔
اور وہ گت لہراتی ہوئی اپنی گلی مڑ گئی۔
  بقلم : عمیر علی

0 تبصرے:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


Contact Form

Name

Email *

Message *

Pages

Powered by Blogger.
 
فوٹر کھولیں