تازہ ترین
لوڈ ہو رہا ہے۔۔۔۔
Thursday, 31 August 2017

موت کے دستخط

August 31, 2017

تحریر: عمیرعلی

سیڑھیاں اترتے ہوئے اچانک دل میں ٹیس اٹھی جو عبدالودود صاحب کو ہسپتال لے گئی. تشخیص کے بعد معالجوں نے دل کا مرض بتایا, جان بچنے پر خدا کا شکر ادا کرنے کا کہا اور مکمل آرام کا مشورہ اور دواؤں کی لمبی فہرست کے ساتھ گھرروانہ کر دیا. 
زندگی بچنے کا شکرتو تھا لیکن موت کو انتہائی قریب سے دیکھنے کے بعد فکربھی لاحق ہو چکی تھی کہ اب زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں. آنے والے وقت کا سوچتے اور پریشان رہتے کہ آنکھیں موندنے کے بعد, اولاد میں اتفاق کی کمی ہونے کی وجہ سے خاندان کا شیرازہ بکھرنے کا اندیشہ نمایاں تھا. اس صورت میں سب سے زیادہ فکر انہیں اپنی عزیز جان شریک حیات نسیمہ بیگم کی تھی. عبدالودود صاحب کوعلم تھا کہ انکے جانے کے فورا بعد بچے جائیداد بیچ باچ کہ تقسیم کر لینگے اور نسیمہ بیگم کا کوئی پرسان حال نا ہوگا. 
اسی ادھیڑ بن میں انہوں نے اپنا مکان اور دوکان نسیمہ بیگم کے نام کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ اولاد کی وجہ سے انہیں دربدر ٹھوکریں نا کھانا پڑیں اور کاغذات محفوظ کر لیے. انکے اندیشے درست ثابت ہوئے اور ایک ماہ بعد پڑنے والا دوسرا دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا. حسب توقع بمشکل ایک ہفتہ مگر مچھ کے آنسو بہانے کے بعد بچوں نے عبدالودود صاحب کی تجوری کو کھولا تاکہ جائیداد کے کاغذات حاصل کیے جائیں. 
تینوں بھائیوں اور دو بہنوں کو شدت سے انتظار تھا کہ جلد از جلد یہ سرمایہ ان تک منتقل ہو جائے. وکیل صاحب کی موجودگی میں جب کاغذات کا متن خاندان والوں کو بتایا گیا تو سب کے چہرے غصہ اور بے بسی سے تمتما رہے تھے ماسوائے نسیمہ بیگم کے جو پریشان تھیں کہ اس معاملے کا کیا حل کریں جبکہ مرحوم کی وصیت میں نمایاں درج تھا کہ نسیمہ بیگم کے زندگی میں کوئی جائیداد فروخت نا کی جائے. دن گزرے اور بچوں کی طرف سے نسیمہ بیگم پر دباؤ ڈالا جانے لگا کہ جائیداد بیچ کر حصہ کیا جائے لیکن وہ اپنے مرحوم خاوند کی آخری خواہش کے سامنے بے بس نظر آئیں.
وہ ساون کی ایک رات تھی جب بادل زوردار آواز سے گرج رہے تھے, بجلی کڑک دار آواز میں کان پھاڑ رہی تھی. بجلی جب عبدالودود صاحب کی کھڑکیوں پر پڑتی تو ایک کھڑکی میں ایک بوڑھی عورت کا کرسی پر دراز سایہ نظر آتا تو ساتھ والی کھڑکی سے پانچ سایے کسی گول میز کانفرس کا منظر پیش کرتے جو سر جوڑے کسی فیصلے ہر پہنچنے کی کوشش میں تھے. 
بالآخر ایک سایہ اٹھا اور ساتھ والے کمرے کو بڑھا. نسیمہ بیگم عبدالودود صاحب کے ساتھ بیتے پلوں کو یاد کرنے میں مصروف تھیں جب دروازہ چررر کی آواز سے کھلا اور بڑا بیٹا اختر سب بہن بھائیوں کی نمائندی کیلیے آگے بڑھا. 
آو بیٹا, کیسے ہو, نسیمہ بیگم شفقت سے بولیں
ہم ٹھیک نہیں ماں جی 
سب کی ضرورتیں ہیں
آپکو فیصلہ کرنا ہوگا
بیٹا فیصلہ تمہارے ابو کر گئے تھے, میں تو نبھارہی ہوں
یہ سن کر اختر غصے میں کھڑا ہوا اور نسیمہ بیگم کی طرف لپکا. 
پھر وقت کی بےرحم آنکھوں میں وہ منظر قید ہو گیا جب خون کارنگ سفید ہوا لیکن ہر طرف سیاہی پھیلی تھی. انگلی پکڑ کر چلنے والوں کے ہاتھ گریبان پر تھے. تمام رات جاگ کر سلانے والی آنکھیں ابل کر باہر آرہی تھیں, مچلتی ٹانگوں کو بالآخر قرار آگیا.
صبح غمزدہ چہروں کے ساتھ سوگواران کا استقبال کرتے ہوئے پانچوں کے چہروں پر کوئی ملال نا تھا بلکہ ایک شیطانی اطمینان تھا. 
عبدالودود صاحب جاتے جاتے نسیمہ بیگم کی موت پر بھی دستخط کر چکے 
تھے. 
کہتے ہیں مقتول کی آہیں ہمیشہ قاتل کا پیچھا کرتی ہیں. قتل کرنا مشکل نہیں, قاتل قتل کا معاوضہ نہیں لیتا, وہ مقتول کی آہوں, سسکیوں کو برداشت کرنے اور قتل سے پہلے مقتول کی آنکھوں میں امڈتی التجا, زندہ رہنے کی چاہت اور استعجاب کو جھیلنے کا معاوضہ لیتا ہے.
ایک منجھا ہوا قاتل متعدد بار اس سب سےگزر کر ان سب باتوں کا عادی ہو جاتا ہے, لیکن وقتی ابال میں آکر قتل کرنے والا شخص اس سب سے پیچھا نہیں چھڑا پاتا. مقتول کی سسکیاں, آہیں اور آنکھیں اسکاپیچھا کرتی ہیں. مختلف واہمات میں مبتلا کرتی ہیں, اکثر لوگ اس سب کو مقتول کی روح گردانتے ہیں تو کچھ ضمیر کی خلش.
جائیداد بیچ باچ کر سب اپنے اپنے حصے سمیٹ کر اپنی دنیا میں مگن تھے مگر سب کے دل میں کہیں نا کہیں چور تھا. لیکن اختر تو دن بدن کسی انجانی کیفیت کا شکار ہونے لگا.
گو ملنے والی رقم کو کاروبار میں لگا کر دن دوگنی رات چوگنی ترقی پائی, بچے بھی قدم ملانے لگے تھے, لیکن ہمیشہ اسے کوئی اپنا پیچھا کرتا محسوس ہوتا.
گزرتے گزرتے دس سال بیت گئے کاروبار وسیع ہوگیا لیکن مستقبل میں کسی بچے میں وہ خاصیت نظر نا آتی جو یہ سب سنبھال سکے اور آگے بڑھا سکے. گرتی صحت مزید ملول کرتی کہ آخر کس لیے یہ سب کیا. اپنے لیے جو نہ جانے کب سب چھوڑ کر چلا جاؤں, یا اس اولاد کیلیے جس کا رویہ اختر کیلیے مکافات عمل کا سماں پیش کرتا. جنہیں نا باپ کہ فکر تھی اور نا ہی کام کی. بس آئے روز لاکھوں روپے اڑانے کا شوق تھا جو اختر کو کھلنے لگا.
اختر نے رقم دینے میں بندش کی تو جوان بیٹے گریبان کو آنے لگے. ایسے میں اختر اچانک دس سال پیچھے چلا جاتا اور اسے لگتا جیسے وہ نسیمہ بیگم کی طرف بڑھ رہا ہے. اس لگتا کسی دن دروازہ چررررر کی آواز سے کھلے گا اسکا بیٹا اندر آئیگا اور وہی منظر دوہرایا جائیگا. شاید ابا جی نسیمہ بیگم کے ساتھ اسکی موت کے دستخط بھی کر چکے تھے جو کہ مکافات عمل کی صورت میں سامنے آتا.
وہ خوف زدہ انداز میں دروازہ تکتا رہتا ہر آہٹ پر چونکتا. پھر اس نے فیصلہ کیا وہ اپنا گناہ سب کو بتائیگا لیکن اتنی ہمت نا تھی. سو اپنی آپ بیتی لکھ کر دراز میں رکھ دی کہ بعد مرنے ہی کھلے.
وہ دس سال پہلے جیسی طوفانی رات تھی, بارش زوروں پر تھی بادلوں کی گھن گرج بھی عروج پر تھی جب اختر کے کمرے کا دروازہ کھلا اور بیٹا وسیم اندر داخل ہوا. اندھیرا ہونے کے باوجود اختر کو اسکے چہرے پر اپنی موت نظر آئی اور وہ تیار تھا. وہ نسیمہ بیگم کی آہوں سے نجات چاہتا تھا. وسیم سامنے والی کرسی پر خاموشی سے دراز ہو گیا.
بابا آپ سوچ رہے ہونگے میں یہاں کس لیے آیا. شاید آپ سہی بھی ہوں.
آپ جب ڈائری لکھتے ہوئے کل سو گئے تو میں تاریخ دوہرانے کمرے میں آیا تھا, شاید وہی سب ہو جاتا اگر میں آپکی ڈائری نا پڑھ لیتا. لیکن اس کے بعد مجھے کیا حاصل ہوتا کچھ سالوں بعد میں آپکی جگہ پر ہوتا اور سامنے میرا بیٹا.
بابا آپ یہ مت سمجھیے کہ کوئی نیکی کام آ گئی یا آپکا گناہ ختم ہو گیا. بلکہ شاید میری کوئی نیکی کام آگئی جو میں آپکی جگہ پر آنے سے محفوظ رہا. اپنے جرم کا حساب آپ کو دینا ہوگا. جس کی پہلی قسط میرا اور آپکا قطع تعلق ہے. اللہ حافظ
یہ کہہ کر وسیم کمرے سے نکلا اور اختر کو ابھی مزید اس جرم کے بار تلے جینا تھا. 

0 تبصرے:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


Contact Form

Name

Email *

Message *

Pages

Powered by Blogger.
 
فوٹر کھولیں