سوچو
کہ ایک جسم ساٹھ ستر سال تک دنیا بھر میں بھاگتا پھرتا ہے،سب کارِ زندگی انجام
دیتا ہے۔ بیمار ہوتا ہے، زخمی ہوتا ہے، پھر بھلا چنگا ہو جاتا ہے۔ ایک میلہ سا اُس
کے گرد لگا رہتا ہے، بہنیں واری جاتی ہیں، ماں صدقے جاتی ہے، بیوی بلائیں لیتی ہے،
بھائی جان وارتے ہیں، باپ دیکھ کر فخر کرتا ہے، یار دوست آوازیں دیتے ہیں۔پھر ایک
وقت ایسا آتا ہے کہ روح جسم کا ساتھ چھوڑ جاتی ہے۔
قیامت
برپا ہوتی ہے، بہنیں چمٹتی ہیں، ماں غش کھاتی ہے، بیوی اُجڑ جاتی ہے، بھائی ٹوٹ
جاتے ہیں، باپ شکست خوردہ سا ہو جاتا ہے ، دوست ادھورے ہو جاتے ہیں۔
غرض
تمام احباب چاہتے ہیں کہ مذکورہ شخص کو کسی طرح دنیا میں واپس بلا لیا جائے، کوئی
ایسا حل ہو کہ یہ ہمیشہ اسی دنیا میں ہمارے سنگ بسا رہے۔ کبھی کسی دور دیس سے آنے
والے کا انتظار ہوتا ہے کہ آخری دیدار کرلے۔ پھر یوں ہوتا ہے کہ روح کے ساتھ چھوڑ
جانے سے پڑا ہوا بیکار مٹی کا جسم ریزہ ریزہ ہونا شروع ہو جاتا ہے، اور عزیز تر
لوگ تمام جذبات بالائے طاق رکھ کر جسم کو منوں مٹی کے حوالے کر آتے ہیں۔
کچھ
لوگ، کچھ رشتے، کچھ احساس، کچھ جذبے بھی روح کی مانند ہوتے ہیں۔ جن کے بغیر زندگی
اِک جستجو بے معنی، ایک لا متناہی سفر اور وقت کا ضیاع محسوس ہوتی ہے وہ اگر زندگی
سے نکل جائیں تو گویا زندگی ایک بے جان جسم کے سوا کچھ نہیں۔اُن کے بغیر اپنی زندہ
لاش کو کتنا بھی روکنے کی کوشش کرو لیکن کچھ عرصہ کے بعد ہماری زات ریزہ ریزہ ہونا
شروع ہو جاتی ہے اور بالآخر اس مٹی کے ڈھیر کو کسی طرف ڈھونا ہی پڑتا ہے۔
تحریر:
عمیرعلی
0 تبصرے:
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔