ٹھٹھرتی سردی میں آدھی رات میں اکثر علاقوں میں لوگ سو رہے
تھے۔ لیکن ہمارے صحن میں ابھی تک آگ جل رہی تھی۔ میرے بابا ، تینوں بھائی، چچا اور
تایا صحن میں سر جوڑے بیٹھے تھے۔کھسر پھسر کی آواز میرے کانوں میں پڑھ تو رہی تھی
لیکن کچھ واضح سنا نہیں جا رہا تھا۔ ماں سامنے لکڑی کے دروازے سے باہر کان لگائے
کھڑی تھی، اور سخت سردے میں اُس کے شکن زدہ ماتھے پر آتے ہوئے قطرے بتا رہے تھے کہ
معاملہ گھمبیر ہوتا جا رہا ہے۔ جائیداد گھرے سے باہر نہ جائے اس لیے میرا نکاح
قرآن سے کرنے پر میرے انکار نے سب کو اکھٹا کر دیا تھا۔ خاندانی عدالت میں
میرامقدمہ" روایتوں سے انکار" زیر سماعت تھا۔جج ہمیشہ کہ طرح روایتوں کا
امین مرد تھا۔آخر ماں ہانپتی ہوئی آئ اور بولی، زینو تو پچھلے دروازے سے بھاگ جا
اُنہوں نے تجھے ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ماں کے الفاظ کافی دیر تک تو مجھے
سمجھ نہ آئے اور جب سمجھی تو کھڑکی کی طرف بھاگی، کھڑکی پر جا کر خیال آیا، میں گئ
تو آفت ماں پر آئے گی، اس خیا ل نے میرے قدم روک لیے۔ ماں ساکت تھی کہ میں جا کیوں
نہیں رہی۔ اتنے میں دروازہ کھلااور مجھے بھائ کے ہاتھ میں اپنا فیصلہ نظر آیا اور
میں نے آنکھیں موند لیں۔
۔
گھر والوں نے بچپن سے مجھے تایا زاد سے منسوب کر رکھا تھا، اگلے
سال شادی تھی، کامران بہت اچھے تھے اور میرا خیال بھی رکھتے تھے، گو فطری جھجھک
آڑے آتی تھی، لیکن آنکھیں بھی تو دل کا آئینہ ہوتی ہیں ، سب بیاں کرتی تھیں کہ
اُنہیں بھی میں دل و جاں سے قبول ہوں۔ انہیں خیالوں میں کھوئ تھی کہ دھڑام سے
دروازہ کھلا اور بابا سرخ آنکھیں لیے اندر آئے اور کہا، جلدی سے تیار ہو جا تجھے
لڑکے والے دیکھنے آر ہے ہیں۔ میں ہکا بکا بابا کو دیکھنے لگی، بابا آپ ٹھیک تو
ہیں، مجھے ۔۔۔ آپ گڈو کا کہہ رہے ہیں نا۔ نہیں، ۔۔۔۔ بابا بولے، تجھے کہہ رہا ہوں۔
تیرے تایا نے لاہور والے گھر کو لیکر کیس فائل کر دیا ہے کہ وہ گھر اُن کے حصے میں
ہے۔ اور رشتہ ختم کر دیا ہے۔۔۔۔۔۔ بابا کہہ کر چلے گئے۔ حواسوں میں آتے ہی میں نے
کامران کو فون کیا، ،،،،، ہیلو، کیا بات ہے۔۔۔۔ یہ کامران ہی ہیں؟ ؟ لہجہ انکار کر
رہا تھا لیکن آواز تصدیق۔۔۔۔۔۔۔اور سب ختم ہو گیا۔
ایک ماہ بعد میری زندہ لاش بھی سج سنور کر، دلہن بن کر کسی
کے گھر چلی گئ۔
۔
طلاق یافتہ اور جوان، ایک ساتھ آ جائیں تو جینا دشوار ہی
کیا، جرم ہو جاتا ہے۔گلی میں چلوں تو ہزاروں نگاہیں مجھ پر اُٹھتی، لیکن سب میں یا
تو کوئ بھوک ہوتی، یا ایک الزام، جیسے مجرم میں ہی ہوں، اور اس جرم کی پاداش میں
مجھے اب ہر خاص و عام کیلئے تر نوالہ بن جانا چاہیے۔ سسرال والوں کیلئے تو اضافی
بوجھ تھی ہی، میکے میں بھی گویا زبردستی بیٹھی تھی، بھائیوں، بھابھیوں، والدین سب
کے خدمت گزاری کے بعد گویا دو وقت کے چند نوالے بھی احسان کے طور پر دیئے جا رہے
تھے۔ تنگ آکر باہر کام کیلئے نکلی تو بھی" انسان "خاصے کم نظر آئے۔دوبارہ
گھر بسانے کے فیصلے پر پہلے تو خاندانی افراد، احباب اور خیر خواہوں نے تنقیدی
نظروں سے دیکھا۔ لیکن گویا بوجھ ہٹانے کیلئے ایک چار بچوں کے پینتالیس سالہ رنڈوا
شخص سے نتھی کر دیا ۔ خیر سے اب میاں صاحب کے طعنے، گالیاں اور دیگر لوازمات کے
ساتھ کٹ رہی ہے۔
۔
یہ تو چند واقعات ہیں جو مجھ پر بیتے۔ میری ہزاروں کہانیاں
تو یہاں وہاں بکھری ہیں۔ کیونکہ میں ایک عورت ہوں۔ ہر لمحہ مرنا میرا مقدر ہے۔ کاش
ہر چوراہے میں ہر پل مرنے کی بجائے،
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا۔
تحریر
کوشش: عمیر علی
0 تبصرے:
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔