سروئیر: عمیر ویلا
آنے والے دنوں کا ذکر ہے کہ گوگل میں ایک انجینئر سفارش پر بھرتی ہوا۔ کافی قابل شخص تھا، آئی ٹی میں مکمل عبور رکھتا تھا۔ لیکن بلا کا کام چور اور کاہل شخص تھا۔ کمپیوٹر سے متعلق ہر مسئلہ چٹکیوں میں حل کر لیتا تھا ۔ بشرط یہ کہ وہ چٹکی بجائے تو۔
خیر اب جس ذریعے نے اُسکو بھرتی کروایا سو کوئی شایان شان کام بھی دینا تھا جس میں موصوف کو زیادہ تردد نہ کرنا پڑے۔ سو ایک فرضی پراجیکٹ اُسکو دیا گیا کہ گوگل سرچ میں لوگوں پر نظر رکھنے کے بعد رپورٹ دو کہ کس ملک کے لوگوں کا نظریہ فکر کیا ہے۔
خیر ایک ہفتہ تو موصوف نے کرسی پر اونگھتے گزارا۔ایک دن نہ جانے کس ترنگ میں تھے کہ آج کام ہو جائے۔تو سیٹلائٹ کو موڑا اور پاکستان میں موجود ایک مضافاتی گاوں "چونڈہ" کی طرف موڑا۔
ایک پارک کی دکھائی دیا جس پر قریب جا کر علم ہوا کہ، یادگار شہداء 1965ہے۔ کچھ گلیوں کا فاصلہ طے کیا ہو گا کہ ایک پرائمری گرلز سکول کے پاس دو لا اُبالی سے نوجوانوں پرنظر پڑی جو کسی سوچ میں غلطاں تھے۔ اچانک ایک نوجوان نے گفتگو کا آغاز کیا۔
یار علی رضا، کوئی کام کیا جائے۔ کب تک یونہی بیٹھے رہینگے۔
بات تو تیرے ٹھیک ہے عمیر اب تو گھر میں چائے بھی دو بار کی بجاے ایک بار ملنے لگی ہے، اور تو اور ہر آنے جانے والے کے سامنے با آواز بلند ذکر ہونے لگا ہے، لڑکا جیسے ہے کچھ کرے تو اسکی شادی کا سوچوں۔
یار علی کیوں نہ کریانے کی دوکان بنائیں، یہ دیکھو گجر کی دکان کتنی چل پڑی ہے، ابھی مہینہ بھی نہیں ہوا۔ (عمیر نے کہا)۔
علی: بات تو ٹھیک ہے بھائی لیکن دوکان کے لیے سرمایہ کہاں سے آئے گا۔ اور گجر نے دوکان کے برابر میں سکول بھی تو کھول رکھا ہے اور درمیانی وقفہ میں سکول کا دروازہ بھی نہیں کھولتا سب بچے تو اُس سے چیز لیتے ہیں ہم سکول کہاں سے کھولیں گے۔
عمیر: دوست بات تو پتے کی کہی تم نے۔چل کوئی اور کام سوچ۔
علی: یار تم بہت کام چور ہو، ہمیشہ مجھے ہی سوچنے کا کہتے ہو کبھی خود بھی کچھ سوچا کرو۔ کل کو کام شروع کرنے کے بعد بھی یہی کیا تو شراکت کیسے چلے گی۔
عمیر: یار ایسا کرتے ہیں جو بھی رقم موجود ہے ملا کر چاٹ کی ریڑھی لگاتے ہیں۔ اور منافع جمع کرتے رہیں گے۔ پھر آہستہ آہستہ چاٹ کے علاوہ گول گپے اور اُس کے بعد اور چیزیں شامل کرتے جائیں گے۔ دیکھنا قلیل عرصے میں اس قصبے میں ہمارا سب سے بڑا چاٹ سٹور ہوگا۔
علی کی آنکھیں چمکنے لگیں، وہ سہانے خوابوں میں کھو گیا۔اچانک چونک کر بولا یار اگر ہماری چاٹ نہ بکی تو۔ یہ پیسے بھی ضائع ہو جائینگے۔ کوئی ایسا کام سوچ یار جس میں نقصان نہ ہو۔
عمیر: یار میں کافی تھک گیا ہوں، آخر دماغی محنت بھی محنت ہوتی ہے اب تو کچھ بتا یار۔
علی: چل سیالکوٹ چلتے ہیں، وہاں کسی کے ہاں کام کرینگے۔ پیسے جمع کرینگے اور عورتوں کی چپل کا ٹھیلا لگائینگے۔ جلد ہی ہم اُسے دوکان میں بدل دینگے۔
عمیر ہواوں میں تکتے ہوئے کسی حسین الہڑ مٹیار کے پیروں میں خود چپل پہنا رہا تھا۔ اور وہ تھی کہ شرمانے اور لجانے کے سابقہ تمام ریکارڈ توڑنے پر مصر تھی۔
جوتی شاید تھوڑی چھوٹی تھی جو تنگ ہونے پر دوشیزہ کی نازک سی سسکاری نکلی، جو عمیر کے دل کو لگی۔ اور کہا کیا ہوا، آپ کو لگی تو نہیں۔
ابے کیا یار، میں تجھے کام کا بول رہا ہوں اور تو بول رہا ہے لگی تو نہیں۔
اچانک علی کی آواز سے عمیر واپس چونڈہ آیا۔ اوہہہہ آںںں ہاں ہاں
یار لیکن سیالکوٹ ہمیں کام پر کون رکھے گا تیرا کوئی واقف ہے کیا۔
علی: نہیں یار ایک تو جو بھی کاروبار کرنا چاہو مسئلہ آجاتا ہے، سیانے ٹھیک کہتے ہیں "کاروبار کرنا اینا سوکھا نئیں"۔
اس سے پہلے کہ ان دونوں کے خیالی پلاو کا سلسلہ مزید آگے بڑھتا، انجینئیر نے سیٹلائٹ کو بند کیا اور بڑبڑایا۔ کام چور لوگ، بلا وجہ اپنا وقت ضائع کیا بہت تھکن ہو گئی۔ سوچ رہا ہوں دو دن کی چھٹی لے لوں۔
اُٹھنے سے پہلے ہفتہ وار رپورٹ میں لکھا۔
پاکستانی نوجوان بہت کاروباری، وسیع حد نظر اور بلا کے منصوبہ ساز ہوتے ہیں۔
۔
تحریر عمیر علی
0 تبصرے:
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔