اسلام آباد ایکسپریس وے، جو کہ عظیم فیصل مسجد سے شروع ہوتی
ہے، دونوں طرف ہریالی سموئے ہے جو نہ صرف آنکھوں کو ٹھنڈک دیتی ہے بلکہ گرم موسم
میں اکثر گزرتی ہواوں کو بھی قدرے ٹھنڈا کر دیتی ہے۔فیض آباد سے گزرتی ہوئ یہ روات
ٹی چوک پر ختم ہو جاتی ہے۔اسلام آباد میں رہنے والے جانتے ہوں گے کہ یہ کتنی مصروف
ترین سڑک ہے۔ خاص طور پر کورال چوک جسے عرف عام میں ائیر پورٹ چوک بھی کہا جاتا
ہے، تک تو اس سڑک میں بناسرخ سگنل یا انڈر پاس وغیرہ کے بغیر سڑک کراس کرنا ممکن
ہی نہیں۔ لیکن اکثر افراد روانی سے چلتی ٹریفک میں سڑک پار کرنے کی مہم میں زور
شور سے حصہ لینے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ان کی اسی غلطی کی بناء پر کوئ حادثہ رونما
ہو جاتا ہے۔ اور بہت جانیں اس سڑک پر معتدد مقام پرضائع ہو چکی ہیں اور کئ ایک
زخمی ہونے میں بھی کامیاب ہوئے ہیں۔ایسے ہر حادثے کے بعد عموما لوگ گاڑے والے کے
مورود الزام ٹھراتے اور مغلطات بکتے ہیں اور یہ جملہ سننے کو ملتا ہے۔ "گاڑی
والا مار کر چلا گیا"۔"صاحب حیثیت لوگوں کو غریب کی جان کی پرواہ
نہیں" وغیرہ وغیرہ۔ کسی ذشعور کو خیال نہیں آتا کہ آیا غلطی کسی کی بھی ہو
سکتی ہے لیکن پہلے دیکھا جائے کہ مدد کیا کی جا سکتی ہے۔
۔
اسی سڑک پر فضائیہ کالونی سٹاپ کے مقام پر نہ تو کوئ سگنل
ہے نہ کوئ انڈر پاس ، پھر بھی اکثر لوگ خطرہ مول لیکر نہ صرف پیدل یہ سڑک پار کرتے
ہیں بلکہ کئ دفعہ موٹر سائیکل سمیت بھی جان کی بازی لگاتے پائے گئے ہیں۔میں بھی
لوکل وین کے انتظار میں کھڑا تھا اور لوگوں کہ خطرناک انداز میں سڑک پار کرتے دیکھ
رہا تھا، کئ بار تو سینہ اچھل کر حلق کو آیا کہ اب کچھ ہوا، لیکن خیر رہی۔ ان
افراد میں نا خواندہ، مزدور افراد کیساتھ پڑھے لکھے طالبعلم، اور تعلیم یافتہ سجے
دھجے آفس جانے والے لڑکے اور لڑکیاں بھی تھے۔ایک طرف سے ایک کتا آیا اور کھڑا ہو
گیا۔ تھوڑا آگے بڑھتا کہ گاڑیوں کے ڈر سے پیچھے ہٹ جاتا۔ تین چار بار ناکام کوشش
کے بعد بالاخر ہار مان کر ایک طرف بیٹھ گیا۔ جیسے ہی گاڑیوں کی روانی میں کچھ کمی
آئ تو اُٹھا اور بھاگتا ہوا دوسری طرف نکل گیا۔ مجھے لگا وہ اپنے صبر و تحمل سے تعلیم
یافتہ، سلجھے ہوئے انسانون کا منہ چڑا گیا ہو۔
۔
عموما لوگ ہر ہونے والے حادثے، نقصان، یا زندگی میں پیش آنے
والی کسی بھی نا خوشگوار گھڑی کا ذمہ دار دوسروں کو ہی ٹھراتے ہیں۔ موجودہ دور میں
غلطی تسلیم کرنا، خود کا محاسبہ کرنا ناپید ہو چکا ہے۔کم عقل ، نا خواندہ لوگ اس
طرح کے معاملات میں عام طور پر جادو ٹونے ، عملیات وغیرہ کو وجہ قرار دیتے ہیں،
اور اس مد میں خیالی طور پر کچھ لوگوں کو الزام دیکر اُلجھتے رہتے ہیں اور رشتوں
میں دڑاڑ ڈالے رہتے ہیں، تعلیم یافتہ لوگوں میں بھی ایسے نمونے پائے جاتے ہیں اس
کے علاوہ اپنے غلط فیصلوں کے نتیجے کو قبول کرنے کی بجائے بڑے عہدے والے نچلے
کواور نچلے والے اوپر والوں کو وجہ جانتے ہیں۔
۔
جانوروں میں اتفاق خوب ہے، کھائیں گے تو اکھٹے، بیٹھیں گے
تو اکھٹے۔ انسان میں اتفاق نہیں رہا۔ انسان ہمیشہ دوسروں کے پر کاٹنے، دوسروں کو
چوٹ پہنچا کر خوش ہوتا ہے۔ بلا وجہ سازش کرنا معمول بن گیا ہے۔ تاریخ میں قوموں کے
زوال کی وجہ بھی اکثر یہی پائی گئ ہے ۔
۔
ملکی حالات کا ذمہ دار بڑے بڑے کرپٹ سیاستدانوں اور معاشرتی
بگاڑ کا ذمہ دار اکثر زمانے کو ٹھرایا جاتا ہے۔ ہم نے فرض کر لیا ہے کہ معاشرہ میں
سدھار لانا صرف بڑے لوگوں، سیاستدانوں، علما ء کرام ،اداروں وغیرہ کی ذمہ داری ہے۔
خود کو ہر ذمہ داری سے سبکدوش قرار دے دیا گیا ہے جبکہ ہر شخص جب تک بحیثیت انسان
اپنا محاسبہ نہ کرے، اپنی خامیوں پر قابو پانے کی کوشش نہیں کرے گا تو معاشرے میں
سدھار نا ممکن ہے۔ سیاستدانوں ، علما اور دیگر ذمہ داران بھی تو اسی معاشرے سے
نکلیں گے۔ اگر بڑے عہدے پر بیٹھا کوئ ملک کیلئے نا سور بنا بیٹھا ہے تو ایک سبزی
اور پھل کے ٹھیلے والا جو تول میں گڑ بڑ کرتا ہے، وہ بھی اتنا ہی ذمہ دار ہے جتنا
کہ کوئ کرپٹ لیڈر، جنتا کوئ بے عمل عالم جنتا کوئ سست سرکاری نوکر۔
۔
ہمارے
بچوں میں کہیں بھی لڑائ ہو تو ہم کبھی اپنے بچے کو غلط نہیں کہیں گے۔ چاہے اُسکی
غلطی واضح ہو۔ اسی طرح کی چھوٹی چھوٹی رونما ہونے والی بیشتر باتیں بچوں کی بنیاد
کو کھوکھلا کرتی ہیں اور بڑا ہونے پر جب وہ بحیثیت فرد معاشرے میں داخل ہوتا ہے تو
اسکی خامیوں کا وہ اکیلا مجرم نہیں ہوتا۔ کبھی اپنے چھوٹے پھول سے بچوں کو دیکھیں،
کتنے معصوم فرشتوں جیسے ہوتے ہی۔ کبھی سوچا ہے کہ نامی گرامی چور، قاتل بھی کبھی
ایسے معصوم بچے ہونگے، اور کوئ ولی، عالم با عامل یا کوئ بھی اچھا نیک عام آدمی
بھی ایسا ہی بچہ ہوگا۔ تو پھر کیا فرق ہے یہ معصوم بچے بڑے ہوکر الگ الگ راہ چن
لیتے ہیں۔
۔
مجھے
علم ہے کہ شاید میرے لکھنے میں بے ربطگی اور ادھورا پن ہے، لیکن جانئے میرے احساس
میں بھی ایسی ہی بے ربطگی ، تشنگی ہے۔ شاید میں بھی انہی انسانوں جیسا کوئ انسان
ہوں، جو اپنا محاسبہ کرنا نہیں جانتا۔ جو دوسروں کو الزام دینے کے بجائے خود میں
مثبت تبدیلی نہیں لاتا۔ جو یہ نہیں جانتا کہ میں بدلوں گا تو ہی معاشرہ بدلے گا۔
میرے ہاتھ ، آنکھ، زبان سے دوسرے محفوظ ہونگے تو میرا خاندان محفوظ ہوگا۔ ذرا
دیکھئے میں بھی تو پوری تحریر میں دوسروں کو ہی کوستا رہا ہوں۔ جیسے آپ میری تحریر
پڑھ کر خود کو بدلنے کا ایک نا مکمل عہد کریں گے، شاید میں بھی ایسے کتنے نا مکمل
عہد کر چکا ہوں۔ ایسے لاکھوں کڑوڑوں نامکمل عہد ہی ہمیں آج پست قوم بنا چکے ہیں۔چلیں
جب میں اپنے محاسبہ میں کامیاب ہوا تو آپ
سے عہد لونگا۔ اُمید ہے تب تک آپ خود عہد
لے چکیں ہونگے۔
تحریر : عمیرعلی
0 تبصرے:
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔