تازہ ترین
لوڈ ہو رہا ہے۔۔۔۔
Thursday, 22 June 2017

وادی کشمیرکا سفر نامہ

June 22, 2017

یوں تو اس قصے میں میں بھی ہوں، لیکن قصہ میں ہارون کی زبانی لکھ رہا ہوں، کیوں اُسکی وجہ بھی جان جائینگے۔ تو آئیے سنتے ہیں ہارون سے۔
میں پیشے کے اعتبار سے ڈرائیور ہوں اور اسلام آباد سے تعلق ہے۔ کافی عرصہ سے بیروزگاری کے بعد آج ایک دوست کی وساطت سے مجھے نئی نوکری میسر ہوئی تھی ۔ اچھی اُمیدوں کے ساتھ رفاقت صاحب کے گھر پہنچا وہاں دیکھا تو گاڑی تیار ہو رہی تھی۔ تو جناب حیران ہونے کی ضرورت نہیں۔ دراصل رفاقت صاحب تحفے تحائف اور سجاوٹ کا سامان اپنی گاڑی میں رکھ کر دوسرے شہروں کے دوکانداروں کے بیچتے ہیں۔تو گاڑی میں مطلوبہ سامان رکھنے کو تیار کرنا کہتے ہیں۔ رفاقت صاحب اور اُنکے بیٹے عمیرعلی دونوں نے گاڑی تیار کی۔ اور ہمارا سفر شروع ہوا۔ منزل تھی دھیر کوٹ آزاد کشمیر۔
میں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اپنے فرائض کا پہلا دن انجام دے رہا تھا اور دونوں باپ بیٹا ساتھ تھے، تعارف کے بعد خوش گپیوں کہ سلسلہ بھی جاری تھا۔ مری کی مشہور وادی پہنچ کر جھیکا گلی میں گرم گرم انڈے پراٹھے کا ناشتہ کیا اور براستہ بھوربھن کوہالہ پل روانہ ہو گئے جہاں سے دھیر کوٹ کو جانا تھا۔ کوہالہ پُل سے وادی کشمیر کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے جہاں سے بائیں ہاتھ مظفر آباد، وادی نیلم اور سری نگر کو راستہ جاتا ہے اور دائیں کو ہماری منزل یعنی دھیر کوٹ۔
قریبا نو بجے منزل مقصود تک ہم سب بمع سازوسامان پہنچ چکے تھے۔ مجھے موصوف کے کام کا تو اتنا علم نہ تھا البتہ اپنا کام وادی کشمیر کے پر خطر راستوں پر میں بخوبی کر رہا تھا۔ دونوں بازار میں دوکانداروں سے ملنے چلے گئے اور کچھ دیر میں لوٹے۔ رفاقت بھائی کچھ مایوس سےلگ رہے تھے۔ کچھ دیر بعد بولے کہ آج کسی دوکاندار کی ضرورت نہیں ہے لیکن اب اتنی دور آ چکے ہیں کچھ تو کرنا چاہیے۔ کچھ دوکانداروں کے مشورے کے مطابق آگے ایک اور شہر باغ تھا۔ سو رفاقت بھائی کے کہنے پر وہاں کو چل دیے،
نوکر کی تے نخرا کی
دھیر کوٹ سے نکلتے ہی موسم انتہائی خوشگوار ہو چکا تھا جس نے پہلے سے حسین وادی کشمیر کو مزید چار چاند لگا دیے تھے۔ باغ کا سفر کافی لمبا مگر خوشگوار ثابت ہوا۔ مزید یہ کہ یہاں کاروباری دورہ بھی کامیاب رہا۔ اور باغ کے دوکانداروں نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور واپسی کا سفر شروع ہوا۔ اس کے ساتھ ہی گھنے بادلوں کے ساتھ بارش کا آغاز بھی ہو گیا۔ باغ میں کچھ افراد کے مشورہ کے مطابق واپس دھیر کوٹ سے اسلام آبادجانے کی بجائے ایک درمیانی راستہ اختیار کیا جو کہ ارجہ سے بائیں ہاتھ کوٹلی ستیاں کو جاتا تھا۔
اس کے ساتھ ہی بارش کا بھی آغاز ہو گیا۔ ارجہ سے کوٹلی ستیاں کو مڑنے کے کچھ دیر تک سڑک مناسب رہی لیکن کچھ آگے جانے کے بعد سڑک کی حالت کافی خستہ ہو چکی تھی، اس کے ساتھ بارش بھی زور پکڑ رہی تھی اور ہوائیں بھی تند و تیز ہوتی جا رہی تھیں۔
اب منظر یہ تھا کہ ہمارے ایک طرف بلند و بالا پہاڑ، سامنے خستہ و پر خطر راستہ اور دوسری طرف دریا تھا۔ بارش اتنا زور پکڑ چکی تھی کہ اکثر یہ بھی معلوم نہیں ہو تا تھا کہ پانی کے اندر سڑک پر کتنی گہرائی ہو سکتی ہے۔اور اکثر کوئی چھوٹا موتا پتھر بھی آ کر گاڑی سے ٹکرا جاتا، خیر رہی کہ کوئی بڑی آفت نہ آئی۔ کافی آگے جانے کے بعد ایک شخص نے ہاتھ سے روکا اور چلانے لگا آگے مت جانا ، آگے مت جانا۔ جو بعد میں معلوم ہوا کہ وہ شخص ہمارے لیے فرشتہ ثابت ہو تھا اور جو سفر ہم کر آئے تھے وہ بھی کسی طرح خطرے سے خالی نہیں تھا۔ کیونکہ طوفانی بارش میں پہاڑوں سے آنے والے ریلے ایک تو آپ کو سڑک کے گہرائی کا اندازہ نہیں ہونے دیتے اور دوسرا اپنے زور پر آپ کو بہا کر دریا میں بھی پھینک سکتے ہیں۔
گاڑی ایک سائیڈ پر لگانے کے بعد ہم بھی عوام کے اُس جمگھٹے کا حصہ بن گئے جو طوفان کے تھمنے کے انتظار میں تھا۔ دو گھنٹے بعد بھی طوفان تھمنے کے کوئی آثار نہ تھے لگتا تھا رات یہیں ٹھٹھرتی سردی میں گزارنی پڑے گی۔ مزید کافی انتظار کے بعد طوفان کچھ تھما اور بارش بھی تقریبا ختم ہو گئی تو ہم نے خدا خدا کر کے واپسی کا سفر شروع کیا۔
ابھی آدھ گھنٹے کا سفر کیا ہو گا کہ آگے کیچڑ نما دلدل آ گئی، ہمارے سامنے کچھ گاڑیاں گزری تو ہم نے بھی گاڑی دلدل میں ڈال دی۔ لیکن بعد میں اندازہ ہوا کہ شدید غلطی کر لی، کیونکہ وہ گاڑیاں پہاڑی راستوں کے لیے موزوں تھیں لیکن ہماری گاڑی سفری گاڑی تھی جس کی وجہ سے ہم دلدل میں پھنس چکے تھے۔ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ گاڑی سے نکلتے اور کچھ زور آوری کرتے۔ سو میں گاڑی میں رہا اور گاڑی کو ریس دی اور باقی دونوں افراد گاڑی کو دھکا لگانے لگے لیکن گاڑی تھی کہ ایک انچ بھی نہیں ہل رہی تھی۔ مزید پریشانی یہ کہ اوپر سے پہاڑ سے کوئی نہ کوئی مٹی کا ٹکڑا آ کر نیچے گر پڑتا جو کہ شاید دلدل بننے کی اصل وجہ بھی تھا۔ آگے اور پیچھے گاڑیوں کی قطار لگ چکی تھی کیونکہ درمیان میں ہم قید تھے۔ پہلے تو کوئی مدد کو نہ آیا لیکن جب تقریبا آدھ گھنٹے تک سب کو احساس ہوا کہ اگر یہ نہ نکل پائے تو ہم بھی یہیں رہیں گے تو دس سے بارہ افراد دلدل میں اُترے اور کافی مشقت کے بعد ہمیں باہر نکالا گیا۔ اس دوران عمیر کی جوتیاں بھی کہیں دلدل میں ہی گم ہو گئی تھیں۔ خیر سفر کا آغاز دوبارہ شروع کیا۔
لیکن ابھی مشکلیں ختم نہیں ہوئی تھیں۔ کہتے ہیں نہ کہ ہاتھی گزر گیا اور دم رہ گئی۔ تو جناب کوٹلی ستیاں پنجاب میں آ کر دیکھا تو طوفان سے درخت ٹوٹ کر زمین پر گرے ہوئے تھے اور ساتھ ھی بجلی کی تاریں بھی۔ اور راستہ مسدود تھا۔ پوچھنے پر علم ہوا کہ یہاں سے ایک چھوٹا سا راستہ مری کو بھی جاتا ہے جہاں سے واپسی کی امید ہے، وہاں جانے کی کوشش کی تو وہ بھی مسدود پایا۔ دوبارہ واپس آ کر ڈرتے ڈرتے درخت کے ایک سائیڈ پر موجود خفیف دڑاڑ میں سے تاروں کے اوپر سے گاڑی گزاری اور گھر کو روانہ ہوئے۔
تو جناب آپکو اندازہ ہوا ہو گا کہ میں نے یہ کہانی ہارون کی زبانی کیوں بیاں کی۔ نہیں تو بتائے دیتا ہوں ۔ کیونکہ وہ ہارون کا پہلا دن تھا، اور مجھے اُمید نہیں تھی کہ پہلے دن ہی اس قدر خوفناک سفر کے بعد وہ دوبارہ کام پر آئے گا۔ لیکن حیرت ہوئی جب وہ دوبارہ اپنی ڈیوٹی پر موجود تھا۔ اور یہ سفر جس قدر خطرناک تھا وہ شاید میں ایک نو آموز لکھاری ہونے کے ناطے سہی سے بیاں نہیں کر پایا لیکن یہ ایک کبھی نہ بھولنے والا پر خطر سفر تھا۔

تحریر: عمیر علی

0 تبصرے:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


Contact Form

Name

Email *

Message *

Pages

Powered by Blogger.
 
فوٹر کھولیں