سوشل میڈیا پر تحریک چلی
ویسے تو کئی تحریکیں سوشل میڈیا پر چل چکیں، لیکن سوشل
میڈیا تک ہی رہیں، جن میں تازہ ترین ان رمضان پروگراموں کے میزبانوں کے خلاف تھی
جو سارا سال طوفان بدتمیزی برپا رکھتے ہیں اور رمضان میں چینلز پر دین سکھانے
براجمان ہو جاتے ہیں۔ بات قدرے ٹھیک بھی تھی لیکن جناب ایک طرف تو سوشل میڈیا پر
لمبی پوسٹیں کرنا اور دوسری طرف انہیں شوز کو کُل کنبہ کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنا اور
انکی ریٹنگ بڑھانا۔ بقول سہیل وڑائچ صاحب۔ "کیا یہ کھلا تضاد نہیں"۔
لیکن اس تحریک نےدیکھتے ہی دیکھتے ایسا زور پکڑا کہ پہلی
سوشل میڈیا تحریکوں کے برعکس حقیقت کا روپ دھار گئی۔ سوشل میڈیا پر اس تحریک پر دو
گروہ بن گئے، ایک حامی اور ایک مخالف، بھئی اب اپوزیشن بھی تو ضروری ہے۔
حامی گروپ، جس نے یہ تحریک کا اغاز کیا تھا کہتا ہے کہ جب
یہ پھل گوداموں میں پڑے تین دن تک سڑنے لگیں گے تو خود بخود قیمتیں گریں گے، اور
پھل جو کہ رمضان کی آمد کے ساتھ مزید مہنگا ہو گیا ہے غریب کی پہنچ میں آ جائیگا۔
جب کہ مخالف گروہ کا کہنا تھا کہ اس سے ذخیرہ اندوزوں کو تو
کوئی فرق نہ پڑھے گا وہ سامان سرد خانوں میں جمع رکھیں گے، لیکن غریب ریڑھی بان جو
کہ تمام دن محنت کر کہ گزارہ کرتا ہے وہ متاثر ہو گا۔
ہمیں دونوں باتیں ہی ٹھیک لگتی، اگر ریڑھی بان کا سوچیں تو
یقینا اصل نقصان اُسی کا ہے، لیکن دوسری طرف دل کہتا کہ پہلی بار قوم کسی ایک نقطے
پر متفق ہوئی اور اس کو عملی جامہ بھی پہنا دیا۔ پہلی بار کوئی ایسی تحریک چلی جس
میں حسب، نسب، ذات پات، فرقہ، مسلک، سیاسی وابستگی سے ہٹ کر کسی ایک نقطے پر عوام
کی رائے ایک ہے، اور اگر یہ تحریک ناکام ہوئی تو نہ جانے دوبارہ یہ ایک ہوں گے یا
نہیں۔
خیر آج دو جون کو دیکھا پھل فروش جو من مانی کرتے تھے، گلا
سڑا سیب بھی سو ، ایک سو بیس روپے کلو نخرہ کر کے دیتے، دام بھی کم نہ کرتے اور
مرضی کا ڈالنے بھی نہ دیتے، اچھا والا سیب تو کیا کہنے، چشم بددور، جو خربوزہ پچاس
سے کم نہ کرتے وہی بیس روپے کلو کی آواز لگا کر بیچنے لگے، ہم نے تو جھٹ سے تصویر
بنا ڈالی۔ کہ لو جی ہو گئی کامیاب آپ کی تحریک۔ جو آڑو سو روپے سے کم نہ ملتا اب
پچاس مل رہا۔ اب ذخیرہ اندوزوں کی کمر تو توڑ دی لیکن آپ چپکے چپکے جا کر سستے
داموں ڈھیر سا پھل ذخیرہ اندوز تو نہیں کر رہے جناب۔
اس تحریک کی کامیابی پر خوشی، غمی کے ملے جلے جذبات دل میں
امنڈنا شروع ہو گئے۔ وہیں خیال آیا کہ مہنگے پھلوں کے خلاف تو ہم ایک ہو گئے اور
انہیں سستا بھی کروا لیا۔ ہم دس بیس روپے مہنگا پھل برداشت نہیں کر پا رہے لیکن جب
ہم اپنا مستقبل بذریعہ ووٹ چنتے ہیں اس وقت ہم امیدوار کا معیاری، سچا اور
ایماندار ہونا نہیں بلکہ ذاتی و سیاسی وابستگیوں کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کرتے
ہیں۔ حتی کہ بعض اوقات معلوم بھی ہو گا کہ سامنے والا پچھلی مرتبہ بھی خوب کرپشن
کر چکا، دوبارہ اُسی کو ووٹ دینگے کہ مخالف پارٹی کو نہیں دے سکتے خواہ وہاں کوئی
نیا یا اچھا امیدوار ہو ۔ گویا آپ کی نظر میں اچھے سیاسی امیدوار کی قیمت پھل اور
ٹینڈے سے بھی کم ہے۔
ہم نے ریڑھی بان کو تو جھکا لیا، لیکن ہم بڑے بڑے برانڈز،
جہاں سے ایک دام واحد کلام کے پیغام پڑھنے کے بعد ہم مہنگی اشیا ء چپ چاپ تھیلیاں
بھر بھر لے آتے ہیں، اور فخر سے دوسروں کو دکھاتے ہیں کہ فلاں برانڈ کا ہے۔ اُن کے
خلاف مہم کب چلائیں گے؟ ہم برے سیاسی رہنماوں کو سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر
کب پکڑیں گے؟ ہم مہنگے تعلیمی اداروں کے خلاف جہادی مہم کب چلائیں گے؟ اور ہم اپنا
احتساب کب کرینگے کہ آیا ہم نے آج کتنے جھوٹ بولے، رزق کمانے میں حلال حرام کا
تناسب کیا رکھا۔ اپنے رشتوں میں کہا تک حقوق کا خیال رکھا۔
میرے خیال میں اب جہادی تحریکوں کا سلسلہ چل ہی نکلا ہے تو
اسے اسی طرح بلا تفریق دور تک جانا چاہیے۔ شاید اسی طرح ہمیں سیاسی، سماجی گلے سڑے
ٹینڈوں سے نجات مل جائے۔
تحریر: عمیر علی
دلیل لنک
https://daleel.pk/2017/06/04/45786
0 تبصرے:
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔