تازہ ترین
لوڈ ہو رہا ہے۔۔۔۔
Friday, 23 June 2017

مفلس خاوند اور اس کا معمول

June 23, 2017
آج میں بہت پُر سکون تھا، ایک عجیب اطمینان میرے رگ و پے میں سرایت کر رہا تھا۔ یہ کیفیت نا جانے کتنے سالوں بعد میسر ہوئ تھی، میں خود بھی یاد نہیں کر پا رہا تھا۔صبح جب گھرسے نکلا تو مجھے خود اندازا نہیں تھا کہ سب اتنے اچھے سے سر انجام ہو جائے گا۔
۔
روزانہ دن بھر کی محنت کے بعد ملنے والے چار سو پچاس روپوں میں دن بھر کا سودا سلف لاتے لاتے اکثر کوئ نہ کوئ شے رہ جاتی تھی۔ لیکن آج میں صمم ارادہ لیکر نکلا تھا کہ آج کچھ نہیں رہنے دونگا۔ چھوٹے کامی کیلئے پتنگ کے پیسے میں نے پیدل فیکٹری جا کر بچائے اور اپنے ذہن کی لسٹ میں نمبر ایک پر ٹک کا نشان لگا دیا۔دوپہر کو تھوڑی بھوک لگی لیکن سوچا بیگم کی دوائ نہ لی تو سرکار ناراض ہو جائیں گے، اور ہم ٹھرے مشرقی رن مُرید مرد، یہ کہاں سہہ پائیں گے، سو کھانے کو نو دو گیارہ کر کہ لسٹ پر دوسرا ٹک کامیابی سے لگایا۔
۔
شام کو پہلے نزدیکی بازار سے سودا سلف، سبزی،دالیں، آٹا وغیرہ لیکر تیسرے نمبر پر او کے کی مہر ثبت کی اور بقایا رقم کو گنا۔کامی کی پتنگ کے پیسے نکال کر بیس روپے بچے۔ سوچا بس میں بیٹھیں اور گھر کو چلیں کہ اچانک یاد آیا، میری گڑیا کی گڑیا تو رہ ہی گئ، سو جناب بس کو ماری ٹھوکر اور چل دیے ہم تمام سامان سمیت پیدل۔ گھر کے پاس والے کھلونوں کے ٹھیلے سے گڑیا لی۔ جیب تو خالی ہو گئ۔ لیکن لسٹ پر تمام "ٹک" موجود پا کر اطمینان کا سانس لیا۔ جی جناب اب معلوم ہوئ میرے اطمینان کی وجہ۔ چلیں گھر چلتے ہیں۔
۔
فاخرانہ انداز میں گھر میں داخل ہوتے ہی، تما م سامان اپنی ضعیف چارپائ پر ڈھیر کیا، اور بیگم کو با آواز بلند پکارا۔ کامی اور گڑیا بھی بھاگے آئے اور اپنی اپنی چیزیں پا کر اچھلنے لگے۔ پسینے سے شرابور چارپائ کے کنارے پر بیٹھ کر بیگم کا جائزہ لینے لگے کہ آج تو سرکار بہت خوش ہونگے کہ ایک چنگھاڑ برآمد ہوئ اور ہم بقلم خود، پسینے سمیت دھڑام سے زمین پر آ گرے۔
۔
سبزی کے ساتھ دھنیا اور مرچیں کہاں ہیں، کوئ کام ڈھنگ سے نہیں ہوتا، میرے پھوٹے نصیب مجھے میرے ماں باپ نے کہاں پھینک دیا۔ نہ جانے کب جان چھوٹے گی۔
۔
مجرمانہ انداز میں سر جھکائے ہم اُٹھے، بلکہ ہم نہیں میں اُٹھا، اور اپنے جُرم پر نادم سا بچوں کو دیکھتا ہوا طہارت خانے میں پناہ لینے کیلئے گھسا۔ بیگم کا واویلا دروازہ کھٹکٹھا رہا تھا۔ اور لسٹ پر موجود تمام "ٹک" میرا منہ چڑا کر کھلکھلا کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے۔
تحریر کوشش: عمیر علی

0 تبصرے:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


Contact Form

Name

Email *

Message *

Pages

Powered by Blogger.
 
فوٹر کھولیں