تازہ ترین
لوڈ ہو رہا ہے۔۔۔۔
Thursday, 31 August 2017

اچھو اور کتابیں

August 31, 2017

عمیر علی یار بچپن میں سنا ہو گا کتابیں باتیں کرتی ہیں ہمارا دل بہلانے کی پر کیا کبھی کتابوں کو باتیں کرتے سنا. 

ارے ہاں انکے لفظ , فقرے تو بولتے ہیں لیکن باقاعدہ انسانوں جیسی باتیں سنی؟
نہیں نا, پر ایک بار ایسا ضرور ہوا. 
ایک لڑکا اچھو بہت نالائق تھا, سال بھر کتابوں کو ہاتھ نا لگاتا امتحان سے ایک رات قبل پڑھنے کی زحمت کرتا اور کمرہ امتحان میں بیٹھ جاتا. 
حسب روایت امتحان میں کامیابی سے ناکام ہونے کا شرف حاصل کرتا, شروع شروع میں گھر والوں کے طعنے سنتا, نتیجہ کے چار پانچ دن تک چھپتے چھپاتے دیر رات گھر آتا. وقت ہر زخم کا مرہم تو ہے لیکن وقت ڈھٹائی بھی عطا کرتا ہے. 
رفتہ رفتہ اچھو میاں کو طعنوں کی عادت ہوتی گئی, ناکام ہونے کے بعد مطمئن ہو کر گھر آتا, صحن میں ببر شیر کی طرح کھڑے ہو کر ابا کی پھٹکار وصولنے کے بعد اپنے کمرے میں ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر سو جاتا. مزید وقت گزرنے کے ساتھ گھر والوں کو بھی شفا مرہم ڈھٹائی سے ہی ملی. 
گویا وہ ناکام ہوتا, گھر آتا, صحن میں داخل ہوتا, ابا اپنے کام میں مصروف رہتا اور وہ چپ چاپ کمرہ میں چلا جاتا. 
جب ماسٹر مسلسل دو چار سال اسکو جھیل کر تنگ آ جاتے تو زبردستی پاس بھی کر دیتے کہ جان بچی سو لاکھوں پائے, نکما اگلے ماسٹر کے سر جائے, یوں جناب بلآخر پندرہ سال کی عمر میں چھٹی جماعت میں براجمان تھے.
کہتے ہیں وقت پلٹا کھاتا ہے, کایا پلٹتی ہے اور شیطان فرشتہ اور فرشتہ شیطان بھی بن جاتا ہے. 
ایک دن کسی کالج کی حسینہ پر نگاہ پڑی تو دل ہار بیٹھے, اتفاق سے حسینہ انہیں اور انکا تمام شجرہ نسب بخوبی جانتی تھی کہ عنقریب جناب امتحانی ناکامی میں غیر اعزازی نمبروں سے پی ایچ ڈی کرنے والے ہیں, سو اظہار کے جواب میں تفصیلا لعن طعن بمع ایک عدد چماٹ وصول پایا. بس اسی دن سے ایسی چوٹ لگی کہ اچھو نے ایک دل دیلا دینے والا عہد کیا وہ پڑھے گا. 
ماں جی نے جب بستہ اٹھائے اسے کمرہ سے باہر آتے دیکھا تو بھیانک چیخ سے استقبال کیا, آخر ماں تھی, بھاگم بھاگ قریب آئی ماتھے پر ہاتھ رکھا, نبض ٹٹولی اور بولی
پتر اچھو تیری طبیعت تو ٹھیک ہے نا. 
اچھو جو عموما کاٹ کھانے کو دوڑتا تھا عشق میں چور دھیمے سے بولا جی ماں جی
اس انداز کو دیکھ کر تو ماں جی کو باقاعدہ غشی آئی اور چیخی اچھو کے ابا ہمارے اچھو کو کیا ہو گیا.
ابا بھی دور کھڑے سکتہ میں سب منظر دیکھ رہے تھے ماں کی ممتا ایک طرف وہ بھی باپ تھے. 
دونوں کو سکتہ میں چھوڑ کر اچھو جب محلہ میں نکلا تو ہر آنکھ حیران تھی.
سکینہ خالہ جو ہمیشہ اسے صلواتیں سناتی اپنا ململ کا گندہ دوپٹہ جس میں ہمیشہ چند روپے گانٹھےہوتے چبا رہی تھی یہاں تک کہ اس کے آج کے ٹینڈوں کے پیسے چورہ چورہ ہو گئے. 
رشید دودھ والے کی دودھ ڈالتے ہوئے نگاہ اٹھی تو پلک جھپکنا بھول گئی, وہ دودھ ڈالتا جا رہا تھا اور دودھ تھیلی سے چھلک چھلک کر "اپ شگون" کا مرتکب ہو رہا تھا. 
ڈاکٹر سلیمان سے بدلہ لینے کا بھی آج سنہرا وقت تھا جس کی قابلیت کے اچھو کو ہمیشہ طعنے ملے. جونہی اپنی موٹر کار ہر گلی میں داخل ہوا اچھو کو بمعہ بستہ سکول جاتے دیکھنے کے تجسس میں موٹر کو بجلی کے کھمبے میں دے مارا. 
سکول کے داخلی دروازے سے کمرہ جماعت میں استاد طفیل تک جہاں جہاں سے اچھو میاں کا گزر ہوا سب مبہوت تھے. گویا کسی چلتی فلم کی ریل کو روک دیا ہو. 
اپنی کرسی ہر بیٹھ کر جب اپنا سابقہ بد قسمت اور موجودہ خوش قسمت بستہ زنننننن کی آواز سے کھولا تو سب مڑ کر استعجاب کی تصویر بنے اچھو کی نادر کتابیں باہر آنے کا منظر دیکھ رہے تھے. 
سال بھر خواب خرگوش کے مزے لینے والی کتابوں کو جب جھنجھوڑ کر نکالا گیا تو پورے سکول میں گھنٹیاں سی بجنے لگیں اور تمام کام چور کتابوں نے یک زبان ہو کر کہا. 
مجھے کیوں نکالا
مجھے کیوں نکالا
مجھے کیوں نکالا
اچھو کی پڑھائی اور عشق کا ذکر کسی اور باب میں سہی لیکن جب بھی کسی نکمے ک چور کو کام پر اکسانے کیلیے بستر سے یا کام چوری پرنکالا جاتا ہے تو درو دیوار میں اس نکمے کی یہ آواز گونجتی ہے
مجھے کیوں نکالا
مجھے کیوں نکالا
تحریر: #عمیرعلی

0 تبصرے:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


Contact Form

Name

Email *

Message *

Pages

Powered by Blogger.
 
فوٹر کھولیں