اس نے خواتین کے ڈائجسٹ میں پڑھا. ہیروئین نے عید پر سادگی سے ہلکا میک اپ کیا, ہلکی فیروزی شلوار قمیض کے ساتھ فیروزی جھمکے غضب لگ رہے تھے. جب بھائی اور چچا زاد و تایا زاد عید پڑھ کر آئے تو انہوں نے اپنے مضبوط ہاتھوں سے تنو مند بیل ذبح کیا لیکن ان کے کپڑوں پر شکن بھی نا آئی. اور جتنے میں وہ گوشت تقسیم کر آتے ادھر نازک لیکن سلیقہ مند ہاتھوں نے فورا کوفتے, بریانی اور ریشمی گولا کباب تیار کر لیے. سب نے بہت تعریف کی لیکن خالو زاد ساجد نے کچھ زیادہ ہی معنی خیز تعریف کی. ساجد بھی کالے لباس میں گبھرو جوان نیلی دھوپ کی عینک لگائے ڈائینگ ہال میں بیٹھا خوب لگ رہا تھا.
حسن اتفاق سے وہ رسالہ عید سے دو دن قبل پڑھا تھا سو اس نے بھی ایسی عید گزارنے کا فیصلہ کیا. زیادہ پیسے دیکر درزی سے جوڑا سلوایا. عید آ گئی. لیکن یہ کیا. جونہی وہ شفاف لباس میں ملبوس مردوں کا استقبال کرنے پہنچی سب نے آنا فانا کپڑے بدل کر پرانے پرانے شلوار قمیض اور ٹراوزر شرٹ پہن لیے تھے. بکرا زمین پر ٹکروں میں بٹا ہوا پڑا تھا. سب کے کپڑے خون میں لت پت تھے. اور لم ڈھینگ ساجد کا تو چہرا بھی خون میں لت پت تھا جس وہ میں کوئی ڈریکولا لگ رہا تھا.
اتنے میں امی آ گئی. ارے نکمی تو کہاں تیار ہو کر گھوم رہی ہے. چل کپڑے بدل کر آ. گوشت کے حصے کون بنائیگا. حصے بنا کر مل مل کر ہاتھ دھوئے تو بمشکل کلیجی اور پھیپھڑے بنائے. کھاتے ہوئے ساجد چلایا.
نمک سستا ہے تو سارا ڈالو گی کیا.
وہ ساجد کے ادب و ڈایجسٹ سے ناواقف اس جملے پر خون کےگھونٹ پی کر کمرے میں آ گئی جہاں بلی نے اس کی نیلی قمیض "لیر و لیر" کر دی تھی.
0 تبصرے:
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔