تازہ ترین
لوڈ ہو رہا ہے۔۔۔۔
Friday, 23 June 2017

ایک لڑکی کے چار قدم

June 23, 2017

چار قدم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چار قدم میری زندگی بدلنے والے تھے
ہر قدم پر ماضی کا ایک منظر کسی سنیما اسکرین کی طرح میری آنکھوں میں جھلملا رہا تھا۔
پہلا قدم رکھا تو مجھے ایک سات سالہ بچی دکھائ دی۔ جس کو اُس کا باپ کمر پر لادے گھوڑا بنا کھلا رہا تھا۔اور وہ اُس کی پیٹھ پر اپنے ننھے ہاتھوں سے گھونسے برسا رہی تھی۔اور وہ اُسے خوش کرنے کیلئے ایسے چیخ رہا تھا جیسے وہ ننھے گھونسے اُسے بہت زور سے لگتے ہوں۔
،
دوسرے قدم پر منظر تبدیل ہوا تو ایک بارہ سالہ لڑکی دکھائ دی جو باپ سے ضد کرہی تھی کہ اُسے وہ سوٹ چاہیے جو وہ دیکھ آئ تھی، باپ پریشان تھا، اور ساتھ کھڑی ماں اُس ضد پر ڈانٹ رہی تھی۔ کیونکہ وہ اپنے مجازی خدا کے اُن دنوں چل رہے مالی حالات سے واقف تھی۔ باپ نے اچانک اپنی بیوی کو خاموش ہونے کو کہا اور اُس لڑکی کو لیکر سوٹ دلانے چل دیا۔ اُسکی بیوی یہ سوچتی رہ گئ کہ یہ باپ بیٹی کی محبت کے بعد آنے والے دن اُسکے شوہر پہ بھاری پڑنے والے ہیں۔
،
تیسراقدم ایک اور نظارہ لیے ہوئے تھا جب ایک تین سالہ بچی بخار میں تپ رہی تھی اور اُسکے والدین اُسکو لیکر بھاگے بھاگے ڈاکٹر کہ پاس پہنچے ، روتے ہوئے اُسکی حالت ڈاکٹر کو بتائ، اُسی وقت بچی کا علاج شروع ہوگیا۔ میاں بیوی پوری رات سونا تو دور بیٹھ بھی نہ سکے، صبح بچی کی حالت سنبھلی تو اُنکی جان میں جان آئ۔
،
چوتھے قدم کے منظر میں ایک  لڑکی اپنے باپ پر چلا رہی تھی، بابا آپ میرے ہر معاملے میں بولتے ہیں، میں بڑی ہو گئ ہوں، بابا آپ کچھ نہیں سمجھتے، بابا آپ کا دور الگ تھا، بابا اپنے کام سے کام رکھا کریں۔ اور باپ  ضبط کر کہ اپنے کمرے میں چل دیا۔ اور خاموشی سے کرسی پر دراز ہوکر آنکھین موند لیں، کہ ایک قطرہ سا ٹپکا اور چہرے سے ہوتا ہوا قمیض میں ضم ہوگیا۔
،
اچانک میرے بڑھتے قدم رُک گئے میں اُس لڑکی کو پہچاننے لگی، ارے یہ تو میں ہی تھی،۔۔۔۔ یہ میں کیا کرنے جا رہی تھی۔
مجھے اپنے آپ سے گھن آنے لگی۔
اُسی وقت بابا روز کی طرح میرے کمرے کے دروازے پر ایک نظر مجھے دیکھنے آئے، میں جو روزانہ اُنکی اس بات سے خائف ہوتی تھی، اُن کو دیکھ کر ضبط نہ کر سکی۔ اور روتی ہوئ بابا کے گلے لگ گئ۔ بابا پریشان ہوگئے اور کہنے لگے : کیا ہوا بیٹا۔
میں سردرد کا کہا۔ اُنہوں نے مجھے لٹا کر سر درد کی گولی دی اور پاس ہی کرسی پر بیٹھ گئے۔ کمرے میں دو جذبے پروان متوازی چڑھ رہے تھے۔
ایک بابا کی پریشانی اور دوسرا میری پشیمانی۔ کوئ بھی ہارنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔
کچھ دیر بعد اور بابا کو تسلی دے کر رخصت کیا اور کامران کو فون ملایا۔
فون ملتے ہیں اُس نے کہا: کہاں پہنچی ہو، نکل آئ گھر سے۔
میں بس اتنا ہی کہا: کامران میران انتظار مت کرنا، چند دنوں کی رفاقت کیلئے میں بابا کو نہیں چھوڑ سکتی۔ اللہ حافظ۔
تحریر کوشش: عمیر علی

0 تبصرے:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


Contact Form

Name

Email *

Message *

Pages

Powered by Blogger.
 
فوٹر کھولیں