تازہ ترین
لوڈ ہو رہا ہے۔۔۔۔
Friday, 23 June 2017

خود کش حملہ آور اور تاریخ

June 23, 2017
آج کل لفظ خود کش بہت فیشن میں آ گیا ہے۔ لیکن خیال رہے یہ لفظ اور فیشن کوئ نیا نہیں ہے۔ اس کی تاریخ ویسے تو صدیوں پُرانی ہے لیکن اس کو باقاعدہ فروغ پانچویں صدی ھجری میں ملا۔ جب ایک شخص "حسن بن صباح" نے جھوٹی نبوت کا دعوی کیا۔
اُس نے اپنی ایک جنت بھی بنائ جس میں قافلوں سے لوٹی ہوئی کمسن لڑکیوں کو حوریں بنایا جاتا، اور کمسن لڑکوں کو تربیت کر کہ فدائ یعنی خود کش حملہ آور بنایا جاتا۔ بھنگ سے ملتی جلتی کسی بوٹی حشیش سے دماغ ماوف کر کہ ان کو "حوروں" کے حوالے کر دیا جاتا اور کچھ عرصہ اُن کو اُس جنت میں رکھا جاتا۔
تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان اُسی وقت زوال پذیر ہوئے جب وہ عیاش طبع اور آرام طبع ہو گئے۔ عیاش طبع حکمرانوں کو تربیت یافتہ "حوروں" سے اپنے دام میں لایا جاتا۔ اور جو پکے مسلمان ہوتے اُنکو ختم کرنے کیلئے "فدائ" استعمال کیے جاتے۔ طریقہ کار یہ ہوتا کہ فدائیوں کو جنت سے بلوا کر کہا جاتا ک فلاں امیر یا سالار کو قتل کر کہ ہمیشہ کیلئے اس جنت کے حقدار بن جاو۔کبھی تو مطلوبہ شخص کو گھات لگا کر قتل کیا جاتا اور قتل کے فورا بعد قاتل خود کو قتل کر لیتا۔اور کبھی وہ صفوں میں قابل اعتماد آدمی بن کر موقع ملنے پر قتل کرتا اور جھوٹی جنت کے لالچ میں خود بھی ختم ہو جاتا۔
حسن بن صباح تو اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ لیکن محسوس ہوتا ہے جیسے اُس کا طریقہ کار ابھی تک قائم ہے۔ برین واشنگ اور کسی جھوٹی جنت کے لالچ میں خود کش بھی تیار ہو رہے ہیں اور عیاش طبع اور بھٹکے ہوئے حکمران بھی ویسے کے ویسے ہیں جو نام کے مسلمان ہیں۔ اور ہم کچھ افراد کو ختم کرنے کو اپنی کامیابی تصور کیے ہوئے ہیں۔ جب تک حسن بن صباح کا نظام اور طریقہ کار ختم نہیں ہو گا۔باطل فرقہ لوگوں کی برین واشنگ کرتا رہے گا تو یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہو پائے گا۔
تاریخ سے ماخوذ

تحریری کاوش: عمیر علی

0 تبصرے:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


Contact Form

Name

Email *

Message *

Pages

Powered by Blogger.
 
فوٹر کھولیں