پچیس جنوری انیس سو اسی
احمد چاکلیٹ لیکر نرسری
جماعت کی طرف بڑھا، کمرہ میں داخل ہوا تو گول مٹول سی گڑیا جیسی علینا کے ہاتھ میں
پہلے سے چاکلیٹ موجود تھی اور عاشر علینا کو ایسی نظروں سے دیکھ رہا تھا جن نظروں
سے علینا چاکلیٹ کو دیکھ رہی تھی۔ احمد نے چاکلیٹ کو ردی کی ٹوکری میں پھینکا اور
بوجھل قدموں واپسی کیلئے چل دیا۔
پچیس جنوری انیس سو
پچاسی
احمد گھر سے ناشتہ کیے
بغیر ہی جلدی جلدی نکل پڑا، کینٹین سے چاکلیٹ لی اور بھاگم بھاگ چوتھی جماعت کی
طرف بڑھا، عاشر
آج بھی پہلے سے موجود تھا۔
ہر
سال کی طرح ایک اور چاکلیٹ ردی کی ٹوکری میں جا چکی تھی۔
پچیس
جنوری انیس سو نوے
احمد
آج تہیہ کر چکا تھا کہ کچھ بھی ہو وہ آج پہلے پہنچ کر چاکلیٹ علینا کو دے گا۔ اپنی
ننھی بائیسکل کھڑی کر کہ ہانپتا ہوا جب نویں جماعت میں داخل ہوا تو وہ جان گیا کہ
اس سال ایک اور چاکلیٹ ردی کی ٹوکری میں جانے والی ہے۔
پچیس
جنوری انیس سو پچانوے
احمد
بوجھل قدموں سے گھر سے نکلا، کالج کی کینٹین سے چاکلیٹ خریدی اور ردی کی ٹوکری میں
پھینک کر جماعت میں آ کر بیٹھ گیا، عاشر اور علینا سر جوڑے شاید چاکلیٹ کھانے اور
کچھ بھن بھن کرنے میں مصروف تھے۔
پچیس
جنوری دو ہزار
آج
یونیورسٹی جانے کا ارادہ نہ تھا، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ آج بھی اُس کی چاکلیٹ
ردی میں جانے والی ہے، آج بھی علینا اپنی سالگرہ پر عاشر کے تحائف وصول کر رہی ہو
گی۔ آج بھی اُن کی آنکھوں میں وہی چمک ہو گی جو وہ بیس سال سے دیکھتا آ رہا
تھا۔ لیکن جیسے اب ہر سال چاکلیٹ ردی کی ٹوکری میں پھینکنا ایک ایسا لازمی مضمون
بن چکا تھا جس کے بغیر اگلی جماعت اور اگلے سال میں داخل ہونا نا ممکن نظر آتا
تھا۔
شکستہ
قدموں سے یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہی کینٹین سے چاکلیٹ خریدی اور جماعت کے باہر
ردی کی ٹوکری میں پھینک دی۔ اور آکر اپنی نشست پر بیٹھنا چاہتا تھا کہ ایک آنچل
لہرایا اور ردی کی ٹوکری اُلٹ گئی،تمام کچرا اُس نکل کر دروازہ میں بکھرا پڑا تھا
لیکن اُس میں چاکلیٹ نہیں تھی۔ کسی کی سسکتی سانسوں اور بھاگتے قدموں کی آواز سب
سے نمایاں تھی۔
احمد
نشست چھوڑ کر تیز قدموں سے کمرہ سے باہر نکلا تو کوئی نازک اندام سی لڑکی مخالف
سمت بھاگتی دکھائی دی۔ احمد نے بھی تیز قدموں سے پیچھا جاری رکھا اور بالاخر
لائیبریری میں جا کر اُسے پا ہی لیا۔
سمیرا،
تُم؟
اور
یہ چاکلیٹ تمہارےہاتھ میں کیوں؟
ہر
سوال کے جواب میں وہ چپ چاپ گردن جھکائے کھڑی رہی
لائیبریری
میں ہلکی آہوں اور فرش پر گرتے اُس کے آنسووں کی ٹپ ٹپ کے سوا کوئی آواز اگر
تھی وہ احمد کی ہانپتی سانسوں کی تھی۔
سمیرا،
بتاو ورنہ میرا دماغ کی نس پھٹ جائے گی ۔
خدا
کے لیے ایسا مت بولیں
نحیف
سی آواز آئی
کیا
آپ نے سوچا کہ پچیس جنوری کو کسی اور کی بھی سالگرہ ہو سکتی ہے ، اگر آپ نے کسی
کو زندگی کا محور بنایا ہے تو کیا کوئی آپ کو زندگی کا محور نہیں بنا سکتا؟
یہ
کہتے ہوئے اُس نے جب نگاہیں اُٹھائیں تو اُن میں وہ چمک احمد واضح دیکھ سکتا تھا
جو وہ بچپن سے عاشر اور علینا کی نگاہوں میں دیکھتا آیا تھا۔
سمیرا
مزید وہاں نہ رک پائی اور بھاگتی ہوئی لائبریری سے باہر چلی گئی۔ پریشان سے احمد
نے نگاہ اُٹھائی تو دیکھا کہ سمیرا کا بیگ لائیبریر ی کے درمیان میں گرا پڑا تھا۔
اور کئی ایک چاکلیٹ جن کی معیاد گزرے بھی کئی دہائیاں ہو چکی تھی، فرش پر بکھری
پڑی تھی۔ احمد نے سب سمیٹ کر بیگ میں ڈالیں اور سمیرا کے پیچھے لپکا۔
چاکلیٹ
کی اصل حقدار کو وہ کھونا نہیں چاہتا تھا۔
۔
تحریری
کوشش: عمیر علی
0 تبصرے:
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔